• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بوسہ لینے میں شہوت کا انکار

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک سسر اپنی بہو کا ماتھا چومنے کے بعد اس کے رخساروں کو پکڑ کر دانتوں سے کاٹے۔

صورت حال یہ تھی کہ بہو نے سسر کو کھانا وغیرہ دیا اور سسر کھانا کھا کر لیٹ گئے، سسر نے بہو سے کہا کہ میرا سر دبا دو، ا س سے پہلے بھی وہ  سر اور پاؤں دباتی تھی۔ بہو نے سر دباتے ہوئے کہا کہ میں کچن میں سالن پکانے کے لیے رکھ کر آئی ہوں، میں دیکھنے جاتی ہوں، بہو کچن میں گئی تھوڑی دیر بعد سسر بھی کچن میں آ گئے اور کہا کہ آپ مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو (مطلب پوچھنے کا یہ تھا کہ آپ کو حمل ٹھہر گیا ہے) بہو نے کہا نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ تو سسر نے کہا اللہ میری بیٹی کو اولاد دے تو میں بچوں کو کھلاؤں گا۔ پھر سسر نے پہلے ماتھا چوما پھر گال پکڑ کر چکی کاٹی، پھر چلے گئے، تھوڑی دیر بعد انہوں نے ہاتھ کھولے ہوئے تھے جیسے معانقہ کرنے کے لیے کھولتے ہیں وہ بہو کو پکڑنے والے تھے کہ بہو نے اپنے ہاتھ سے ان کا ہاتھ ہٹا دیا۔ بہو کا کہنا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ آیا ایسی حرت سے حرمت مصاہرت واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ مہربانی فرما کر جواب تحریر فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بوسہ ماتھے اور رخسار پر ہے اور ماتھے اور رخسار پر بوسہ سے حرمت مصاہرت اس وقت ثابت ہوتی ہے جبکہ یہ بوسہ شہوت کے ساتھ ہو۔ مذکورہ صورت میں چونکہ سسر کا کہنا ہے کہ یہ بوسہ میں نے شہوت کے ساتھ نہیں دیا بلکہ اپنی بیٹی سمجھ کر دیا تھا۔ لہذا مذکورہ صورت میں اگر سسر  شہوت نہ ہونے پر قسم کھالے تو سسر کا قول معتبر ہو گا اور حرمت مصاہرت ثابت نہ ہو گی۔

في رد المحتار (4/ 120-121):

(قبل أم امرأته) في أي موضع كان على الصحيح ، جوهرة … (قبل أم امرأته) قال في الذخيرة: و إذا قبلها أو لمسبها أو نظر إلى فرجها ثم قال لم يكن عن شهوة ذكر الصدر الشهيد أنه في القبلة يفتى بالحرمة ما لم يتبين أنه بلا شهوة و في المس و النظر لا، إلا أن تبين أنه بشهوة لأن الأصل في التقبيل الشهوة …… و منهم من فصل في القبلة فقال إن كانت على الفم يفتى بالحرمة و لا يصدق أنه بلا شهوة و إن كانت على الرأس أو الذقن أو الخد فلا إلا إذا تبين أنه بشهوة ….. (و المعانقة كالتقبيل و كذا القرص و العض بشهوة) لأن المقصود تشبه هذه الأمور بالتقبيل في التفصيل المتقدم فلا معنى للتقييد.

و في الفتاوى الهندية (1/ 274):

و كما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس و التقبيل و النظر إلى الفرج بشهوة كذا في الذخيرة … و كذا عضها بشهوة هكذا في الخلاصة.

و في القاضي خان (1/ 361):

و أما الحرمة بدواعي الوطء إذا مسها أو قبلها بشهوة تثبت الحرمة و إن أنكر الشهوة كان القول قوله إلا أن يكون ذلك مع انتشار الآلة.

و في فتح القدير (3/ 217):

بخلاف ما إذا قبلها منتشراً فإنه لا يصدق في دعوى عدم الشهوة …. و في التقبيل إذا أنكر

الشهوة اختلف فيه قيل لا يصدق لأنه لا يكون إلا عن شهوة غالباً فلا يقبل، و قيل يقبل إلا أن يظهر خلافه بالانتشار و نحوه. و قيل بالتفصيل بين كونه على الرأس و الجبهة و الخد، فيصدق أو على الفم فلا و الأرجح هذا إلا أن الخد يتراءى إلحاقه بالفم .

کفایت المفتی (5/ 83- 182):

’’اگر لڑکے کی بیوی کا بوسہ لیتے وقت اس شخص کو شہوت نہ تھی اور دل میں بھی شہوت کا خیال نہ تھا تو یہ عورت اپنے شوہر پر حرام نہیں ہوئی۔ لیکن اگر یہ بوسہ شہوت سے لیا گیا تو یہ عورت اپنے شوہر پر حرام ہو گئی۔ اگر یہ شخص قسم کے ساتھ کہہ دے کہ شہوت نہ تھی تو اس کا اعتبار کر لیا جائے گا۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved