- فتوی نمبر: 24-373
- تاریخ: 21 اپریل 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
1۔ ایک سال پہلے عاقلہ بالغہ لڑکی نے زید سے نکاح کر لیا اور اس دوران لڑکی نے اپنے گھر والوں کو اس نکاح کے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ میں نے پہلے بھی نکاح کیا ہوا ہے۔ لڑکی کے بقول اس نکاح میں صرف لڑکے کے والد اور اس کے بھائی گواہ کے طور پر موجود تھے۔
2۔ اس نکاح میں رخصتی نہیں ہوئی تھی اور حق مہر بھی وصول نہیں کیا گیا تھا۔
3۔ ایک سال بعد لڑکی کے والدین نے بکر سے لڑکی کا نکاح کردیا اس نکاح سے پہلے لڑکی نے نہ اپنے گھر والوں کو پہلے نکاح کے بارے میں بتایا اور نہ سسرال والوں کو بتایا کہ میں نے پہلے بھی نکاح کیا ہوا ہے۔ تقریباً تین ماہ بعد سسرال والوں کو کسی طرح سے پہلے نکاح کے بارے میں پتہ چل گیا۔ تو اس کے فوراً بعد لڑکی کو اس کے والدین کے پاس بھیج دیا گیا۔
4۔ لڑکی کے والدین نے پہلا نکاح منسوخ کروانے کے لئے عدالت میں کیس کردیا ہے تاکہ پہلا نکاح منسوخ ہو جائے ور دوسرا نکاح قائم رہے۔
5۔ اب لڑکے بکر نے اپنی بیوی کو پہلی طلاق بھی لکھ کر بھیج دی ہے۔
6۔ اب لڑکا اور لڑکی کے والدین اس رشتہ کو قائم رکھناچاہتے ہیں۔ اور جبکہ لڑکی بھی بکر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور بکر بھی راضی ہے۔
لڑکی کا تعلق جٹ فیملی سے ہے اور زید وکیل ہے اور کھوکھر فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔
اس صورت حال میں ہماری رہنمائی فرمائیں کہ (1)زید سے کیے گئے پہلے نکاح کا کیا حکم ہے؟اور (2)بکر سے دوسرا نکاح ہوا تھا یا نہیں؟ (3)دوسرے نکاح کے بعد دوسرے شوہر بکر نے جو طلاق دی ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز کیا بکر سے دوبارہ رشتہ قائم ہوسکتا ہے؟! شکریہ
وضاحت مطلوب ہے کہ: لڑکی کا مؤقف معلوم کرنے کے لیے کوئی رابطہ نمبر ارسال کریں۔
جوابِ وضاحت: لڑکی کے والد کا رابطہ نمبر:****
لڑکی سے دار الافتاء کے فون سے رابطہ کیا گیا تو اس نے مذکورہ صورتحال کی تصدیق کی اور درج ذیل بیان دیا:
’’ پہلا نکاح ایک ہوٹل میں ہوا تھا، جہاں لڑکے کے والدین، بہن، بھائی وغیرہ خاندان کے افراد موجود تھے، ایک صاحب آئے اور انہوں نے مجھ سے نکاح کی اجازت لی، میں نے اجازت دے دی، حق مہر بھی مقرر ہوا، پھر انہوں نے لڑکے سے ایجاب و قبول کروایا، یہ سب آمنے سامنے ہوا تھا، میں بھی وہیں تھی، اس کے بعد ہم دونوں نے نکاح نامے پر دستخط بھی کردیئے تھے۔ دوسرے نکاح کے بعد جب آخری دفعہ ہماری بات ہوئی تو اس نے مجھے کہا تھا کہ ’’دفع ہوجاؤ، میں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے، اب نہ مجھے فون کرنا نہ میں کروں گا‘‘
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)مذکورہ صورت میں چونکہ لڑکی عاقلہ بالغہ ہے اور اس نے زید سے نکاح اپنی رضامندی سے کیا تھا اور وہاں گواہ بھی موجود تھے اور باقاعدہ ایجاب وقبول بھی ہوا تھا اور لڑکا لڑکی دونوں عجمی ہونے کی وجہ سے کفو بھی ہیں اس لیے وہ نکاح منعقد ہوگیا تھا۔
لڑکی کے بیان میں مذکور ہے کہ دوسرے نکاح کے بعد زید سے جب اس کی آخری دفعہ فون پر بات ہوئی، تو اس گفتگو کے دوران زید نے اسے کہا تھا کہ ’’دفع ہوجاؤ، میں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے ‘‘ اگر واقعتاً زید نے لڑکی کو یہ الفاظ کہے تھے تو چونکہ ہمارے عرف میں یہ الفاظ طلاق کے لیے صریح ہیں اس لیے ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی، اور چونکہ ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی اس لیے یہ طلاق بائنہ ہوئی جس سے نکاح ختم ہوگیا اور لڑکی پر عدت بھی نہیں آئے گی۔
در مختار (4/150) میں ہے:
(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا….. الخ
در مختار مع رد المحتار (4/196) میں ہے:
(وتعتبر) الكفاءة للزوم النكاح خلافا لمالك (نسبا فقريش) بعضهم (أكفاء) بعض (و) بقية (العرب) بعضهم (أكفاء)……….. وهذا في العرب (و) أما في العجم فتعتبر (حرية وإسلاما)
قال الشامي تحته: قوله: (وهذا في العرب) أي اعتبار النسب إنما يكون في العرب فلا يعتبر فيهم الإسلام كما في المحيط والنهاية وغيرهما…….. قوله: (فتعتبر حرية وإسلاما) ……… فالنسب معتبر في العرب فقط وإسلام الأب والجد في العجم فقط والحرية في العرب والعجم وكذا إسلام نفس الزوج هذا حاصل ما في البحر
رد المحتار (519/4) میں ہے:
فإذا قال ” رهاكردم ” أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت.
در مختار (4/499) میں ہے:
(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة
(2)کوئی عورت ایک نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی لہٰذا لڑکی نے جب بکر سے دوسرا نکاح کیا تھا اس وقت چونکہ لڑکی زید کے نکاح میں تھی اور دوسرے شوہر کو معلوم بھی نہ تھا کہ یہ لڑکی زید کے نکاح میں ہے اس لیے یہ نکاح فاسد ہوا۔
ہدایہ مع فتح القدیر (4/288) میں ہے:
(والمنكوحة نكاحا فاسدا والموطوءة بشبهة عدتهما الحيض في الفرقة والموت)
قوله: (والمنكوحة نكاحا فاسدا) وهي المنكوحة بغير شهود ونكاح امرأة الغير ولا علم للزوج الثاني بأنها متزوجة، فإن كان يعلم لا تجب العدة بالدخول حتى لا يحرم على الزوج وطؤها لأنه زنا، وإذا زنى بامرأة حل لزوجها وطؤها، وبه يفتى، كذا في الذخيرة.
(3)چونکہ بکر سے کیا گیا نکاح صحیح نہیں تھا بلکہ فاسد تھا اس لیے بکر کے طلاق دینے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی تھی، کیونکہ طلاق واقع ہونے کے لیے نکاح کا صحیح ہونا ضروری ہے۔ لڑکی کو چونکہ زید سے طلاق ہوچکی ہے اس لیے اب اگر بکر سے رشتہ قائم کرنا چاہیں تو دوبارہ نکاح کرکے قائم کرسکتے ہیں۔
در مختار مع رد المحتار (4/496) میں ہے:
وفي الجوهرة طلق المنكوحة فاسدا ثلاثا له تزوجها بلا محلل ولم يحك خلافا
قوله: (له تزوجها بلا محلل) لأن الطلاق إنما يلحق المنكوحة نكاحا صحيحا، أو المعتدة بعدة الطلاق، أو الفسخ بالردة، أو الإباء عن الإسلام كما قدمناه عن البحر ح أي المنكوحة فاسدا ليست واحدة ممن ذكر ط: أي فلا يتحقق الطلاق في النكاح الفاسد ولا ينقص عددا لأنه متاركة كما قدمناه عن البحر والبزازية في باب المهر عند الكلام على النكاح الفاسد، فحيث كان متاركة لا طلاقا حقيقة كان له تزوجها بعقد صحيح بلا محلل ويملك عليها ثلاث طلقات والله تعالى أعلم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved