- فتوی نمبر: 33-237
- تاریخ: 28 جون 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > کھانے پینے کی اشیاء
استفتاء
کیا پاکستانی کمپنی بنیز (BUNNYS ) کا فروٹ کیک کھانا حلال ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی درج ذیل ہیں:
Flour, Sugar, Vegetable Oil, E-330Acidity Regulator, E-471, E-477, E-500 Baking Powder, E-450, PreservativeE202, NATURE INDENTICAL FOOD FLAVOURS, CAKE GEL.E-422, E-1520, Eggs
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
“بنیز “(BUNNYS)کمپنی کے ” فروٹ کیک” کے پیکٹ پر جو اجزائے ترکیبی درج ہیں ان میں سے کسی جزکے حرام ہونے پر کوئی قابل اعتبار دلیل نہیں، لہذا جب تک مذکورہ فروٹ کیک میں کسی حرام جز کے شامل ہونے کی کوئی قابل اعتبار دلیل سامنے نہیں آتی اس وقت تک اس فروٹ کیک کے کھانے کی گنجائش ہے۔
توجیہ:”بنیز” کمپنی کے “فروٹ کیک ” کے پیکٹ پر 13 اجزائےترکیبی مذکور ہیں جن میں سے6نباتاتی،1 حیوانی اور 6 مصنوعی ہیں۔ان اجزاء کی تفصیل اور ان كا حکم درج ذیل ہے:
نباتاتی اجزاء:
1۔Flour(آٹا)
2۔Sugar(چینی)
3۔Vegetable Oil(سبزیوں کا تیل)
4۔E-330Acidity Regulator ایسیڈیٹی ریگولیٹر(سٹرک ایسڈ پھلوں سے حاصل ہوتا ہے)
5۔E-471گلیسریل مونو سٹریٹ(نباتاتی تیلوں جیسے سویابین، انگور کے بیج، سورج مکھی اور کپاس کے بیج سے حاصل ہوتا ہے)
6۔E-477پروپلین گلیسول ایسٹرز آف فیٹی ایسڈز(نباتاتی تیلوں سے حاصل ہوتا ہے)
نباتاتی اجزاء کا حکم
نباتاتی اجزاء کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے نشہ آوریامضر اجزاء کے علاوہ سب پاک اور حلال ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ اجزاء میں سے کوئی بھی جز نشہ آور یا مضر نہیں ہے لہذایہ سب اجزاء حلال اور پاک ہیں۔
مصنوعی اجزاء
7۔E-500 Baking Powder (خمیر بنانے والا سفوف)سوڈیم بائی کاربونیٹ،اسے بیکنگ سوڈا بھی کہتے ہیں۔
8۔E-450ڈائی فاسفیٹ۔
9۔E-1520پروپلین گلیسول
نوٹ: مذکورہ تینوں اجزاء اگرچہ معدنی اور مصنوعی دونوں سے حاصل ہوتے ہیں لیکن تجارتی سطح پر مصنوعی استعمال ہونے کے باعث انہیں مصنوعی اجزاء میں شامل کیا ہے۔
10۔PreservativeE202(پوٹاشیم سور بیٹ)(قدرتی طور پر ایک پہاڑی درخت کے پھل میں پایا جاتا ہے،کھانے کی چیزوں میں مصنوعی طور تیار شدہ استعمال ہوتا ہے)
11۔NATURE INDENTICAL FOOD FLAVOURS قدرتی ذائقوں کی شناخت رکھنے والے مصنوعی ذائقے
12۔CAKE GEL.E-422 گلیسرین(تیل،چربی کے علاوہ کھانے کی اشیاء میں مصنوعی طور پر تیار ہوتا ہے)
مصنوعی اجزاء کا حکم
مصنوعی اجزاء بھی در حقیقت تین اجزاء(نباتاتی،معدنی اور حیوانی) میں سےکسی ایک سے یا ایک سے زائد سے ہی تیارہوتے ہیں ان سے ہٹ کرکسی اور چیز سے تیار نہیں ہوتے ، اس لیے مصنوعی اجزاءکا اصل حکم تو اسی وقت معلوم ہو سکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ ان کو کن اشیاء سے تیار کیا گیا ہے اور پھر اس Bunnys Cake میں ان میں سے کون سا مصنوعی فلیور استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن جب تک یہ معلوم نہ ہوسکے کہ یہ مصنوعی اجزاء کسی حرام یا ناپاک چیز سے تیار کیے گئے ہیں اس وقت تک انہیں یا جس مصنوع (پروڈکٹ )میں یہ اجزاء شامل ہیں اسے حرام نہیں کہا جاسکتا۔مذکورہ صورت میں چونکہ ان اجزاء کےکسی حرام یا ناپاک اشیاء سے تیار ہونے کا علم یا غالب گمان نہیں اس لیئے ان مصنوعی اجزاء کی وجہ سے مذکورہ مصنوع (پروڈکٹ) کو حرام نہیں کہا جائے گا بلکہ “الاصل فى الاشياء الاباحة” کے اصول کے پیش نظر انہیں حلال کہا جائے ۔لہذا جب تک مذکورہ Bunnys Cake میں کسی حرام جزء کے شامل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک اسے حلال کہا جائے گا۔
حیوانی اجزاء
13۔Eggs (انڈے)
انڈے کا حکم یہ ہے کہ حلال جانوروں سے حاصل شدہ انڈے حلال ہیں اور حرام جانوروں کے انڈے حرام ہیں اور چونکہ پاکستان میں عموما مرغی کے انڈے ہی استعمال کیے جاتے ہیں اس لیے انہیں حلال ہی تصور کیا جائے گا۔
نوٹ:ہمارے اس فتوے کا تعلق صرف صارف (Consumer)کے ساتھ ہے کیونکہ ایک مفتی اور عام صارف کو کسی مصنوع(Product)کے صرف ان اجزائے ترکیبی تک ہی رسائی ہو سکتی ہے جو پیکٹ پر درج ہوں اور وہ ان اجزاء کو ہی سامنے رکھ کر اپنے لیئے یا دوسرے کیلئےحلال یا حرام کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
جبکہ صانع(Manufacturer)کو اصل حقیقت کا علم ہوتا ہے اس لیئے صانع(Manufacturer) نے اگر اپنی کسی مصنوع(Product)میں کوئی حرام جز شامل کیا ہو اور اسے کسی بھی مصلحت سے اجزائے ترکیبی میں ذکر نہ کیا ہو تو صانع (Manufacturer) کا یہ فعل بہر حال حرام ہوگا اور چونکہ ہمارے پاس ایسے وسائل نہیں کہ ہم اس کی تحقیق کر سکیں کہ کسی مصنوع میں واقعتاً کوئی حرام جز شامل تو نہیں ،اس لیئے ہمارے اس فتوے کی صانع (Manufacturer) کے لیئے سرٹیفکیٹ کی حیثیت نہیں ہے۔
نیز ہمارا یہ فتوی موجودہ پیکٹ پر درج اجزائے ترکیبی کے بارے میں ہے لہذا اگر کمپنی آئندہ اجزائے ترکیبی میں کوئی تبدیلی کر ےتو ہمارا یہ فتوی اس کو شامل نہ ہوگا۔
إحياء علوم الدين(2/ 92)میں ہے:
«أما المعادن فهي أجزاء الأرض وجميع ما يخرج منها فلا يحرم أكله إلا من حيث أنه يضر بالآكل….. وأما النبات فلا يحرم منه إلا ما يزيل العقل أو يزيل الحياة أو الصحة»
صحیح بخاری (رقم:5507) میں ہے:
عن عائشة رضي الله عنها: «أن قوما قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: إن قوما يأتوننا باللحم لا ندري أذكر اسم الله عليه أم لا، فقال: سموا عليه أنتم وكلوه» قالت: وكانوا حديثي عهد بالكفر
فتح الباری (9/ 635) میں ہے:
«ويستفاد منه أن كل ما يوجد في أسواق المسلمين محمول على الصحة وكذا ما ذبحه أعراب المسلمين لأن الغالب أنهم عرفوا التسمية»
تبیین الحقائق(6/219) میں ہے:
’’ألا ترى أن أسواق المسلمين لا تخلو عن المحرم من مسروق ومغصوب، ومع ذلك يباح التناول اعتمادا على الظاهر‘‘
ہندیہ5/340) میں ہے:
أكل الطين مكروه، هكذا ذكر في فتاوى أبي الليث رحمه الله تعالى وذكر شمس الأئمة الحلواني في شرح صومه إذا كان يخاف على نفسه أنه لو أكله أورثه ذلك علة أو آفة لا يباح له التناول، وكذلك هذا في كل شيء سوى الطين، وإن كان يتناول منه قليلا أو كان يفعل ذلك أحيانا لا بأس به، كذا في المحيط
بہشتی زیور (ص:775) میں ہے:
’’نباتات سب پاک اور حلال ہیں الا آنکہ مضر یا مسکر ہو۔‘‘
بہشتی زیور (ص:777) میں ہے:
ہر جانور کا انڈہ اس کے گوشت کے حکم میں ہے مگر اس بات میں کہ حلال جانور اگر مردار ہو جائے تو اس کا انڈہ جو پیٹ میں سے نکلے پاک اور حلال ہے۔
امداد الفتاوی(4/96)میں ہے:
’’سوال (۲۳۷۴) : جب سے پتہ لگا ہے کہ بعض ولایتی رنگوں میں اسپرٹ کا شبہ ہے اسی وقت سے جب بھی کپڑا پہنتا ہوں تو طبیعت میں شک رہتا ہے کہ یہ کہیں ناپاک نہ ہو، حضرت اقدس ارشاد فرماویں کہ ولایتی رنگ دار کپڑوں مثلاً رنگین گرم کپڑے، رنگین دھاری دار سرد کپڑے، عورتوں کے لئے پختہ رنگ کی رنگین چھینٹیں وغیرہ بلا دھوئے پہننے اور پہن کر نماز پڑھنے میں حرج تو نہیں ہے؟
(۲) حضرت والا یہ بھی ارشاد فرماویں کہ عورتوں کے لئے ولایتی رنگوں سے دوپٹہ وغیرہ رنگ کر پہننے کا کیا حکم ہے؟
الجواب: اول تو خود ان رنگوں میں جزونجس شامل ہونے میں شبہ پھر ان کپڑوں میں ان رنگوں کے شامل ہونے میں شبہ تو کپڑوں کے نجس ہونے کا شبہۃ الشبہہ ہوگیا؛ اس لئے فتوے سے گنجائش ہے باقی اگر کوئی ورع اختیار کرلے اولیٰ واحسن ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved