• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

کارگوسامان کی خریدوفروخت کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کارگو سامان کی خرید و فروخت

کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ اور ادارے کارگو یعنی لوگوں کا بھاری بھرکم سامان ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں جن کو باقاعدہ حکومت کی طرف سے لائسنس بھی جاری ہوتے ہیں۔کارگو میں لوگ مختلف قسم کا گھریلووتجارتی سامان بھیجتے ہیں مثلا  کپڑے ،بسترے، جوتے، فرنیچر، پنکھے، استری، جوسر مشین، فریج، ایل سی ڈی، برتن، بالٹیاں، ڈرم، کھانے پینے کا سامان، خشک فروٹ وغیرہ ہر چیز پر حکومت کی طرف سے الگ الگ مقدار میں ٹیکسہوتا ہے اور نئی اورپرانی کا بھی فرق ہوتا ہے ،چنانچہ نئی چیزوں کا ٹیکسالگ ہوتا ہے اور پرانی چیزوں کا ٹیکسالگ ،اور پھر ان میں سے کچھ چیزیں ایسی بھی آجاتی ہیں جن کے لانے پر حکومت کی طرف سے پابندی ہوتی ہے، چنانچہ ان کا ٹیکساور زیادہ ہوتا ہے۔

کارگو ادارے دو طرح کے ہیں ایک وہ ہیں کہ جو سامان کو اس کے مطلوبہ مقام تک پہنچانے کی گارنٹی دیتے ہیں مگر یہ لوگ کرایہ زیادہ وصول کرتے ہیں، دوسرے وہ جو سامان کو مطلوبہ مقام تک پہنچانے کی پوری ذمہ داری نہیں لیتے بلکہ پہلے سے اطلاع کر دیتے ہیں کہ اگر حکومت نے کسی وجہ سے ضبط کرلیا تو ہم ضامن نہیں ہوں گے ،اگر ضبط نہیں کیا تو آپ کا سامان پہنچ جائے گا، چنانچہ یہ لوگ کرایہ کم لیتے ہیں۔

نیو کراچی پورٹ کوئی سرکاری ادارہ نہیں بلکہ یہ ایک پرائیویٹ ادار ے جس پر آنے والے سامان کو پورٹ کے قانون کےمطابق 14 دن تک رکھنے کی اجازت ہوتی ہے، اس کے بعد اگر کوئی کارگو ادارہ اپنا سامان وہاں پر چھوڑتا ہے تو پورٹ اس پر تاوان(جرمانہ)نافذ کرتا ہے اور تقریبا ایک کنٹینر پر یومیہ جرمانہ 50سے 100 ڈالر تک ہوا کرتا ہے،کارگو سامان کے ضبط ہو جانے اور نیلام کیے جانے کا واقعہ دو طرح سے منقول ہے:

ایک واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کارگو کاسامان جب یہاں پاکستان میں پہنچ جاتا ہے تو اس سامان پر کسی بھی قانونی وجہ سے ٹیکسزیادہ لگ جاتا ہے اور اس کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ جس کوکار گو والے ادا نہیں کر پاتے ،چنانچہ وہ پورے کے پورے کنٹینر پورٹ پر ہی چھوڑ دیتے ہیں اور پھر سامان کے مالکان کو بھی اطلاع کر دیتے ہیں کہ آپ کے سامان پر اتنی زیادہ ڈیوٹی لگ رہی ہے،کیا اس کو ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟ چنانچہ وہ لوگ بھی اتنا زیادہ ٹیکسادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اپنے سامان کو بغیر خوشی کے چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نیز 14 دن گزرنے کے بعداس سامان پر پورٹ قانون کے مطابق یومیہ تاوان لگنا بھی شروع ہو جاتا ہے، جب کچھ زیادہ وقت گزر جاتا ہے اور سامان کو پورٹ سے نہیں چھڑایاجاتا تو پورٹ افسران حکومت کو’’ کارگو ‘‘ادارے کی شکایت کرتے ہیں کہ یہ فلاں ادارے کا مال آیا ہوا ہے جس پر اتنا ٹیکسا وراتنا تاوان ہے اور اتنی مدت سے یہاں پڑاہوا ہے،ہمارےپاس جگہ کی تنگی ہے، لہذا ان کا معاملہ حل کیا جائے، چنانچہ حکومت’’ کارگو‘‘ ادارے کو وارننگ دیتے ہوئے لیٹر لکھ دیتی ہے فلان تاریخ تک ٹیکساور تاوان ادا کرکے اپنا سامان پورٹ سے آزاد کرا دو ،ورنہ آپ کے سامان کو نیلام کر دیا جائے گا، چناچہ مقرر ہ تاریخ تک جب سامان نہیں اٹھایا جاتا تو حکومت اس سامان کی بولی لگواکر بڑےا داروں کو بیچ دیتی ہے،بڑے تاجر ان کنٹینروں کو بازار میں لاکردکانداروں کو بیچ دیتے ہیں اور دکاندار آگے عام پبلک کو بیچتے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ حکومت ان کنٹینروں کو بازارمیں فروخت کرنے سے حاصل ہونے والی آدھی رقم کو بیت المال میں جمع کردیتی ہے اور آدھی رقم اس آدمی کو دے دیتی ہے جس کے نا’’کارگو‘‘ لائسنس جاری کیا گیا تاکہ وہ آدھی رقم سامان کے مالکان کو پہنچا دے۔

دوسرا واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ’’کارگو‘‘ کے لوگ کبھی قصداً یہ بددیانتی کرتے ہیں کہ وہاں مثلا سعودیہ،دوبئی  وغیرہ سے لوگوں کا سامان وصول کرتے ہیں اور ان کا ایڈریس اور پہنچانے کی اجرت بھی وصول کرلیتے ہیں، مگر اس سامان کو یہاں پاکستان میں مالکان تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا نہیں کرتے بلکہ ان کا سامان بندرگاہ پر لاوارث چھوڑ دیتے ہیں(بندرگاہ پر کوئی شخص جاکر کوئی سامان رکھ نہیں سکتا بلکہ سامان کسی نہ کسی شپنگ کمپنی کے حوالے کیا جاتا ہے ۔ پاکستان والے توبےایمانی کےباوجود کمپنی کالائنس کینسل نہیں کرتے جبکہ سعودیہ والے ایسی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر کے کام ہی نہیں کرنے دیتے بلکہ ان سے بھاری جرمانے بھی وصول کرتے ہیں.اضافہ ازمفتی عبداللہ صاحب) چنانچہ وہ سامان کافی عرصے تک وہیں پڑا رہتا ہے جب کوئی اسے نہیں اٹھاتا اور جگہ وغیرہ بھی تنگ پڑ جاتی ہے تو سعودی پورٹ کا عملہ کبھی تو اس سامان کو سمندر کی نذر کر دیتا ہے اورکبھی اتنا پہچان کر کہ یہ فلاں ملک کا سامان ہے ضائع نہ ہوجائے اس ملک کی طرف روانہ کرکے وہاں کی حکومت کے سپرد کردیتا ہے،چنانچہ وہ سامان جب ہمارے ملک کی بندرگاہ پر پہنچتا ہے تو ہمارے پورٹ کے افسران اپنے ملک میں یہ اعلان جاری کرتے ہیں کہ فلاں ملک سے لاوارث سامان آیا ہوا ہے جن کا ہو وہ وصول کر لے ورنہ فلاں تاریخ کے بعد نیلام کر دیا جائے گا ۔چنانچہ مقررہ تاریخ کے بعد اس کی بولی لگنا شروع ہو جاتی ہے پورے پورے کنٹینروں کا سودا ہوتا ہے، لاکھوں میں سودا ہوتا ہے۔ نیزنیلامی میں وہ مال اس کی اصل قیمت کی بنسبت کافی کم داموں میں بیچا جاتا ہے، اس لیے لوگ بھی اسے بہت رغبت سے خریدتے ہیں، کیونکہ اس سے زیادہ منافع حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے، اورجب سامان فروخت کردیا جاتا ہے قیمت بیت المال میں شامل کر لی جاتی ہے اور آدھی قیمت اس آدمی کو دے دی جاتی ہے جس کے نام کا لائسنس جاری کیا گیا تاکہ وہ سامان اصل مالکان تک پہنچا دے۔ اب اس تمام صورتحال کے بعد آپ حضرات سے درج ذیل چند سوالوں کا جواب مطلوب ہے:

1.کیا اسلام میں حکومت کا لوگوں کے درآمدکردہ سامان کو بالکل ضبط کرلینا مشروع ہے یا درآمد کردہ سامان پر اتنی زیادہ مقدار میں ٹیکسنافذ کرنا جس کے بدلے میں لوگ اپنا سامان چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں جائز ہے؟نیز پورٹ والوں کایومیہ اتنا بھاری تاوان نافذ کرنا کہ لوگ چند دنوں میں ان کے اتنے مقروض ہو جائیں کہ ان کا درآمد کردہ سامان اسی تاوان میں چلاجائے، شرعی اعتبار سے درست ہے؟

  1. کیاحکومت کا’’ کارگو ‘‘کے سامان کو پہلی اور دوسری صورت سے نیلام و فروخت کرنا اسلامی نقطہ نظر سے جائز اور درست ہے؟جبکہ اہل حکومت کا صاحب لائسنس آدمی کے توسط سے اصل مجرموں تک اور پھر سامان کے مالکان تک پہنچنا ممکن بھی ہوتا ہے، اس لئے کہ بعض دفعہ سامان پر مالکان کا ایڈریس بھی موجود ہوتا ہے۔

3.تاجروں کا ایسے مال کو خریدنا اور پھر آگے دکانداروں کو بیچنا شرعاً درست اور حلال ہے؟اور پھر عام پبلک کا دکانداروں سے خریدا ہوا مال ان کے لیے حلال ہے یا نہیں؟ایک آدمی نے ایسا مال دو کنٹینر خریدا ،اس میں سے آدھے سے زیادہ مال آگے فروخت کردیااور آدھے سے کم باقی ہے تو ایسے آدمی کے لیے کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔حکومت کالوگوں کےدرآمد کردہ سامان کو بالکل ضبط کرلینا یا سامان پراتنی زیادہ مقدار میں ٹیکسلگانا کہ جس کی وجہ سے لوگ اپناسامان چھوڑنے پرمجبور ہوجائیں جائزنہیں۔

2۔اصل تو یہ ہے کہ اصل مالکان تک پہنچاجائے اگر یہ ممکن نہ ہو تو مارکیٹ ریٹ پر (نہ کر اونے پونے دام پر)اسے فروخت کرکے اپنے واجبات وصول کرلیئے جائیں اورباقی رقم اصل مالکان تک پہنچائی جائے اور اگر اصل مالکان کا علم نہ ہوتومستحق زکوۃ لوگوں پرصدقہ کردی جائے۔

3۔ تاجر ایسے مال کوخرید سکتے ہیں اورپھر عام پبلک بھی ان دوکانداروں سے مذکورہ مال خرید سکتی ہے،کیونکہ اپنے واجبات وصول کرنے کےلیے حکومت کسی کامال فروخت کرسکتی ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved