- فتوی نمبر: 33-303
- تاریخ: 07 جولائی 2025
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری > اجارہ علی المعاصی
استفتاء
ہم پاکستان میں ایک دفتر میں کام کرتے ہیں جہاں کچھ افراد ایک امریکی کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں، یہ کمپنی امریکہ میں موجود ایک کسینو (casino) نامی گیم کی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کرتی ہے۔ ان افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ آن لائن اشتہارات اور تشہیر کے ذریعے صارفین کو اس ڈیجیٹل کسینو نامی گیم کی طرف راغب کریں، جہاں لوگ رقم لگا کر گیمز کھیلتے ہیں اور جیت یا ہار ان کی قسمت پر منحصر ہوتی ہے، امریکی کمپنی اپنے ملازمین کو تنخواہ اور کمیشن دیتی ہے۔
گیم کا طریقہ یہ ہے کہ دس ڈالر کے بدلے انکو دس کوائنز فراہم کیے جاتے ہیں جو وہ گیم میں ڈالتے ہیں اگر وہ گیم کے ان کوائینز یعنی سکوں کو بڑھا کر لے آتے ہیں تو ان سے وہ سکے لے لیے جاتے ہیں اور انکو انکی قیمت ادا کر جاتی ہے۔ یعنی وہ اگر کھیل جیت کر 60 کوائنز بنا آئے ہیں تو ان سے ساٹھ سکے لے کر پیسے ادا کر دیے جاتے ہیں۔ جو کھیل کر کوائنز ضائع کر آتے ہیں انکو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ:
1۔ کیا ایسی کمپنی کے لیے کام کرنا شرعاً جائز ہے؟ اس کے لیے ڈیجیٹل مارکیٹنگ کرنا اور اس کے بدلے میں تنخواہ لینا کیسا ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہی دفتر کے بعض افراد نے وہی سسٹم خود بنا کر کام شروع کیا، جس میں وہ امریکی گیمز کھیلنے والوں کو جیتنے کی صورت میں کچھ بھی نہیں دیتے، بلکہ ان کے اکاؤنٹس بند کر دیتے ہیں، جبکہ کچھ ممبر انکو جیتنے کی صورت میں دے بھی دیتے ہیں جو افراد کچھ بھی نہیں دیتے ان کا دعویٰ ہے کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں،امریکہ اسرائیل کا اتحادی ہے اور غزہ میں جاری ظلم کا براہ راست حمایتی ہے،لہٰذا ہم امریکہ یا اس کی کمپنیوں سے مال حاصل کر کے اس کا کچھ حصہ فلسطینیوں کی مدد کے لیے جمع کروانے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں، اور باقی رقم بھی مسلمان بھائیوں کی مالی اعانت اور اہلِ خانہ پر خرچ کرتے ہیں
2۔سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا کاروبار جس میں صارف کو جیتنے کے باوجود رقم نہ دی جائے یا دوسری صورت میں انکو دے دینا اور اپنا سسٹم چلائے رکھنا ٹھیک ہے؟
3۔کیا اس طرزِ عمل کو “حالتِ جنگ” یا “مالِ غنیمت” کا نام دے کر شرعاً درست قرار دیا جا سکتا ہے؟
4۔کیا ایسے عمل سے حاصل شدہ مال حلال ہے، اور اس کا کوئی حصہ خیرات یا فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے استعمال کرنا شرعی طور پر جائز ہے؟ اور بقایا رقم آپس میں تقسیم کرنا ٹھیک ہے؟
5۔اس کام کے کچھ حصے ہیں جن میں سے ایک حصہ میں رقم کو امریکہ سے پاکستان منتقل کرنے میں کچھ بینک اکاؤنٹس یا ایپس کا استعمال ہوتا ہے، تو رقم کو پاکستان میں ٹرانسفر کرنے میں معاونت کرنا اور ڈیل کے مطابق اور اخراجات کی مد میں مارکیٹ ویلیو کے مطابق پرسنٹیج مقرر کر کے اپنا حصہ لینا کس حد تک جائز ہے؟
پاکستان میں کام کرنے والے اس پیشہ سے وابستہ تقریباً لوگ غریب مساکین اور مزدور طبقہ ہے، اور ان میں کچھ افراد حفاظ کرام اور مدارس سے بھی وابستہ ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہم اپنی نیت کے مطابق کہ ہماری نیت خالصتاً صحیح ہے اس لیے کام کر رہے ہیں تو کیا انکی دلیل کو مان کر اس کام کو کرنا ٹھیک ہے ؟
ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ ان تمام امور پر مدلل اور واضح شرعی فتویٰ عطا فرمائیں تاکہ ہم اپنے کام کے بارے میں شرعی راہنمائی حاصل کر سکیں۔ اور اگر امریکہ سے رقم پاکستان منتقل کرنا اور فلسطینی بھائیوں اور باقی مسلمانوں پر خرچ کرنا حرب (جنگ) کے زمرے میں آتا ہے تو اس پر پوری قوت سے محنت کر کے مکمل وسائل کو بروئے کار لایا جا سکے۔ کیونکہ ان ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم یومیہ کئی ڈالر ہوتی ہے
موجودہ عالمی و ملکی اور علماء کی کانفرنس کے فتوے کے مطابق ہر مسلمان پر اپنی ذات کی حد تک جہاد فرض ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ کمپنی کے لیے کام کرنا جائز نہیں اور تنخواہ لینا بھی جائز نہیں۔
2۔اس طرح کا کاروبار بہر صورت ناجائز ہے چاہے صارف کو جیتنے پر پیسے دیے جائیں یا نہ دیے جائیں ۔
3۔اس کو حالت جنگ کا نام یا مال غنیمت کا نام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ مال غنیمت سے مراد کفار کا وہ مال ہے جو شرعی جہاد کے نتیجے میں اسلامی لشکر کے قبضہ میں آیا ہو۔
4۔امداد کے لیے مذکورہ طریقہ اختیار کرنا ناجائز ہے کیونکہ دھوکہ اور خیانت سے حربی کافر سے بھی اس کی کوئی چیز (رقم وغیرہ) لینا ناجائز ہے۔
5۔یہ صورت بھی اعانت علی المعاصی کے زمرے میں آتی ہے اور اس پر اجرت لینا مکروہ ہے۔
تفسیر ابن کثیر (3/10) میں ہے:
وقوله: {وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} ……. وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم.
الدر المختار (2/360) میں ہے:
كل ما أدى إلى ما لا يجوز، لا يجوز.
الدر المختار مع ردالمحتار (6/137) میں ہے:
باب المغنم وقسمته في المغرب: الغنيمة ما نيل من الكفار عنوة والحرب قائمة
بذل المجہود (1/359) میں ہے:
صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات، أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه.
شامی (6/263) میں ہے:
(قوله إذ المسلمون عند شروطهم) لأنه ضمن بالاستئمان أن لا يتعرض لهم، والغدر حرام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved