- فتوی نمبر: 33-228
- تاریخ: 24 جون 2025
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
مفتی صاحب! میں نے *** کیٹرنگ اینڈ پکوان سنٹر کے نام سے کاروبار شروع کیا ہے جس میں شادی یا دیگر رسومات کے موقع پر کھانا بنا کر بھیجاجاتاہے اسی طرح شادی کی ڈیکوریشن اور سٹنگ(بیٹھنے کے انتظام) کے لیے کیٹر نگ کا سامان بھی ہم مہیا کرتے ہیں۔ کچھ مسائل دریافت طلب ہیں گزارش ہے کہ ان مسائل کے جوابات دے کر ہماری رہنمائی فرما دیں تا کہ ہمارا کوئی بھی معاملہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔
1) ہمارے پکوان سنٹر سے کھانا فیکٹریوں کو اور شادی بیاہ کے موقع پر دیا جاتا ہے جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پر ہیڈ سسٹم کے طور پر مثلا ایک بندے کا160 سے 170 گرام کھانا جس میں روٹی کا وزن 80 تا90 گرام ہوتا ہے اور اگر چاول ہو ں تو 300 تا 400 گرام ہوتے ہیں اور یہ سب ہم کسٹمر کو بتادیتے ہیں کہ اتنا وزن ہو گا۔
2) ہمارے پکوان سنٹر سے آرڈر پر دیگ وغیرہ تیار کی جاتی ہے جس میں سارا سامان پکوان سنٹر کا ہوتا ہے کسٹمر کو صرف پکی ہوئی دیگ بھیجی جاتی ہے ۔ کسٹمر کہتا ہے کہ 10 کلو قورمہ کی دیگ بنادی جائے ہم بازار سے گوشت خریدتے ہیں تو 10 کلو میں 9کلو سے تھوڑا کم (8800 گرام) گوشت آتا ہے مٹن اور بیف میں بھی صاف کر کے 100 گرام ہر کلو میں کم ہوتا ہے۔ اور یہ بات سب جانتے بھی ہیں لہذا ہم دیگ تیار کر کے دے دیتے ہیں کہ 10 کلو قورمہ کی دیگ ہے۔
3) شادی ہال کا فنكشن ہو تو لوگ ہم سے کیٹر نگ کا سامان لینے آتے ہیں ہمارے پاس ذاتی سامان نہیں ہے ہم باہر اپنے تعلق والوں سے سامان لیتے ہیں مثلا: اگر ہمیں 100 روپے کے حساب سے باہر سے سامان ملتا ہے تو ہم کسٹمر کو 150 روپے کے حساب سے دیتے ہیں اور در میان والے50 روپے ہمارا نفع ہو تا ہے۔
4) پکوان سنٹر میں چونکہ کھاناتیار کیا جاتا ہے تو بنانے والے کھانا بناتے وقت اسکو چیک بھی کرتے ہیں تاکہ ٹیسٹ (ذائقے) کے بارے میں معلوم ہو سکے۔ اور کبھی چیک کرنے کے لیے اتنا بھی نکال لیا جاتا ہے کہ ایک بندہ کھانا کھا سکے۔
5) مٹن بنانے کے لیے یخنی بنائی جاتی ہے جسکو بعد میں ڈالا جاتا ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یخنی زیادہ ہوتی ہے اور کھانے میں ڈالنے کے بعد بچ جاتی ہے جسکو بعد میں ہمارے ورکر ز استعمال کر لیتے ہیں۔
6 ) ہمارے پاس ور کر ز کام کرتے ہیں جن کے لیے کھانا ہم پر ہیڈ سسٹم کے طور پر الگ بناتے ہیں مثلا ایک بندے کا 160 سے 170 گرام کھانا جس میں روٹی کا وزن 80 تا90 گرام ہوتا ہے اور اگر چاول ہوں تو 300 تا400 گرام ہوتے ہیں۔یہ کھانا ہم اپنے ورکروں کے لیے خود اضافی تیار کرواتے ہیں۔
7) بکرے کا کُنہ جب بنایا جاتا ہے تو اس میں بکرے کی مچھلیاں ڈالی جاتی ہیں اس میں گوشت کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھا جاتاہے چنانچہ جب ہم اس سے چربی اتارتے ہیں تو کچھ نہ کچھ گوشت بھی اس چربی کے ساتھ لگارہ جاتا ہے یہ کُنے میں نہیں ڈالا جاتا اور اگر اس کو ڈالتے ہیں تو کسٹمر شکایت کرتے ہیں اس لیے یہ گوشت ہم چربی سے الگ کرکے بطور قیمہ استعمال کرتے ہیں۔بکرے کی مچھلی کے آرڈر میں 10 کلو میں سے 7500 گرام مچھلی نکلتی ہے پھر اس میں سے قیمہ نکال لیا جاتا ہے دیگ میں نہیں ڈالا جاتا کیونکہ اگر دیگ میں ڈالیں تو کسٹمر شکایت کرتا ہے لہذا پکوان سنٹر وہ قیمہ الگ کر لیتا ہے اور پکوان سنٹر ہی اس قیمہ کو رکھ لیتا ہے۔
8) کبھی کسٹمر کہتا ہے کہ دیگ میں گوشت کے ساتھ مثلا چار کلو آلو ڈالنے ہیں ہم آرڈر کے مطابق آلو خرید لاتے ہیں جب کھولتے ہیں تو اس میں کچھ دانے خراب نکل آتے ہیں ان کو پھینک کر باقی آلو ڈال کر کھانا تیار کر لیا جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ چار کلو سے مقدار تھوڑی کم ہو جاتی ہے۔
9) پکوان سنٹر سے کھانا چونکہ فیکٹریوں میں جاتا ہے اور کسٹمرز کبھی پیسے لیٹ کر دیتے ہیں کبھی اتنا تنگ کرتے ہیں کہ ہمیں ان کو فون کر کے جھوٹ بولنا پڑتا ہے کہ یار پیسے دے دو ہمیں دوسروں کو پیسے دینے ہیں مثلا کیٹر نگ کا سامان جہاں سے لیا ہے وہ فون کر رہے ہیں ان کو پیسے دینے ہیں۔
10) بہت سے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں کہ ہم آپ کے پکوان سنٹر کا کھانا فیکٹری میں لگوا دیتے ہیں لیکن اگر 100 روپے پر ہیڈ کھانا فیکٹری کو دینا ہے تو آپ 150 روپے کے ریٹ سے فیکٹری کو دیں اور در میان والے 50 روپے ہمارا کمیشن ہو گا۔ اور تقریبا فیکٹریوں میں کھانا اسی طرح ڈیل کر کے ہی لگتا ہے۔
ان تمام مسائل کا تفصیل سے جواب عنایت فرما کر ہماری رہنمائی فرمادیں تا کہ ہمارا کاروبار شریعت کے مطابق ہو جائے اور کسی کا حق ہم پر نہ رہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آرڈر پر کھانا تیار کر کے دینے کی حقیقت استصناع کی ہے اور کیٹرنگ کا سامان مہیا کرنے کی حقیقت اجارے کی ہے۔استصناع کا مطلب یہ ہے کہ خریدار آپ کو مخصوص کھانا پکانے کا آرڈر دیتا ہے اور آپ اس کو اس کے آرڈر کے مطابق کھانا بنا کر فراہم کرتے ہیں لہذا جب تک کھانا آپ کے پاس ہے آپ کی ملکیت ہے۔آپ کے ذمے صرف یہ ہے کہ آپ آرڈر کے مطابق پورا کھانا فراہم کریں اور اس کے عوض جو رقم آپ نے طے کی ہے وہ وصول کریں۔اجارے کا مطلب یہ ہے کہ کسٹمر آپ سے برتن کرائے پر لیتا ہے اور آپ اس کے بدلے میں اس سے متعین اجرت لیتے ہیں اجارے میں آپ کے ذمے ہے کہ کسٹمر کو برتن مہیا کریں خواہ اپنے پاس سے یا کسی اور سے لے کر، اور اس کے عوض جو رقم آپ نے طے کی ہے وہ وصول کریں۔اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1۔مذکورہ صورت جائز ہے بشرطیکہ وزن کی جو کم سے کم مقدار ذکر کی جاتی ہے کھانا اس سے کم نہ ہو بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ وزن کی جو زیادہ سے زیادہ مقدار ذکر کی جاتی ہے کھانا اس کے مطابق ہو یا اس سے کچھ زائد ہی ہو.
2۔یہ صورت بھی جائز ہے بشرطیکہ آپ کسٹمر کو آرڈر کے وقت واضح کر دیں کہ 10 کلو گوشت صافی نہیں ہوگا بلکہ صافی گوشت 8800 گرام ہوگا اور یا یہ کہ آپ 10 کلو سے اتنا زیادہ گوشت خریدیں کہ صفائی کے بعد بھی کم از کم 10 کلو صافی گوشت نکل آئے اور اس صورت میں آپ اپنا ریٹ بڑھا سکتے ہیں۔
3۔یہ صورت اگرچہ حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں کیونکہ درحقیقت یہ کرائے پر لی ہوئی چیز کو اضافی کرائے کے ساتھ آگے کرائے پر دینا ہے البتہ دیگر ائمہ کے ہاں جائز ہے اور آجکل عرف کی وجہ سے ان کے قول پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
4۔مذکورہ صورت میں صرف اتنا نکالنے کی اجازت ہے جتنا چیک کرنے کے لیے ضروری ہے اور اگر شوربا وغیرہ چیک کرنے سے ذائقہ معلوم ہو سکتا ہو تو بوٹی نکالنے کی اجازت نہ ہوگی۔ لہذا مذکورہ صورت میں ایک بندے کا کھانا نکالنے کی اجازت نہیں۔
5۔حتی الامکان اس کی کوشش کی جائے کہ یخنی اتنی ہی بنائی جائے جو کھانے میں استعمال ہو جائے تاہم کوشش کے باوجود اگر کچھ یخنی بچ جائے اور اسے کھانے میں استعمال کرنا ممکن نہ ہو تو اس کے بارے میں کسٹمر کو بتا دیا جائے وہ یہ یخنی لے جانا چاہے تو لے جائے اور چھوڑنا چاہے تو چھوڑ دے اور چھوڑنے کی صورت میں اسے اپنے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
6۔چونکہ آپ ورکر زکے لیےکھانا خود اپنے پاس سے بناتے ہیں اس لیے یہ صورت جائز ہے۔
7۔اس صورت میں نمبر 2 والی تفصیل ہوگی۔
8۔مذکورہ صورت میں مقدار پوری کرنا ضروری ہے لہذا اگر آلو کے خراب نکلنے کا اندیشہ ہو تو کچھ زائد مقدار خرید لیا کریں اور ایسی صورت میں آپ اپنا ریٹ بڑھا سکتے ہیں۔
9۔جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے تاہم کوئی حقیقی مجبوری ہو تو اسے ظاہر کر سکتے ہیں یا گول مول بات کر سکتے ہیں کہ مثلا ہم نے بھی آگے دینے ہوتے ہیں۔
10۔یہ صورت جائز نہیں ہے اس لیے کہ جب ایک مرتبہ کسی بندے نے آپ کا فیکٹری والوں کے ساتھ معاملہ کروا دیا ہے تو وہ اس کی وجہ سے صرف ایک ہی مرتبہ کمیشن کا حقدار ہے(بشرطیکہ یہ بندہ فیکٹری کا پہلے سے ملازم نہ ہو) ہر ہر مرتبہ کھانا دینے پر اس کے لیے کمیشن لینا جائز نہیں اس لیے کہ کمیشن لینے کا حق دو بندوں کے درمیان معاملہ کروانے کی وجہ سے ملتا ہے اور یہ صرف پہلی مرتبہ ہوتا ہے بعد میں تو فریقین باہمی طور پر خود ہی معاملہ کرتے ہیں اور کسی ایجنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی لہذا صرف ایک مرتبہ کمیشن لینا جائز ہے۔
بدائع الصنائع (4/93) میں ہے:
أما صورة الاستصناع فهي أن يقول إنسان لصانع من خفاف أو صفار أو غيرهما اعمل لي خفا، أو آنية …..بثمن كذا ويبين نوع ما يعمل وقدره وصفته، فيقول الصانع: نعم. وأما شرائط جوازه (فمنها) : بيان جنس المصنوع، ونوعه وقدره وصفته؛ لأنه لا يصير معلوما بدونه.
(ومنها) أن يكون مما يجري فيه التعامل بين الناس من أواني الحديد……… وإنما جوازه استحسانا لتعامل الناس.
سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر: 2225) میں ہے:
عن أبي الحمراء قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بجنبات رجل عنده طعام في وعاء، فأدخل يده فيه، فقال: لعلك غششت، من غشنا فليس منا.
الدر المختار مع رد المحتار (9/47٫48) میں ہے:
ولو آجر باکثر تصدق بالفضل الا في مسألتين اذا آجرها بخلاف الجنس او اصلح فيها شيأ۔
قوله (او اصلح فيها شيأ) بان جصصها او فعل فيها مسناة وکذا کل عمل قائم لان الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لامره علی الصلاح۔
الاشباه والنظائر (ص:137) ميں ہے:
ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها.
مشكوة المصابیح (حدیث نمبر: 2946) میں ہے:
وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه.
الدرالمختار (9/525) میں ہے:
الكذب مباح لاحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه، والمراد التعريض لان عين الكذب حرام.
مسائل بہشتی زیور (2/317) میں ہے:
امام احمدؒ اور امام شافعیؒ کے ایک قول پر یہ (اجارے پر چیز لے کر زائد رقم کے ساتھ آگے اجارے پر دینا) جائز اور حلال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved