• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

چچاؤں کی موجودگی میں بیوی اور بیٹی کا میراث میں حصہ

استفتاء

میرے والد   زید  مکان نمبر چار میں رہائش پذیر تھے کافی عرصہ ہو گیا کہ وہ دنیا سے رحلت فرما گئے۔ اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ہماری والدہ والد سے پہلے فوت ہوگئی تھیں،  ان کے ورثاء  میں بڑے بھائی  خالد ، بکر ،  عمر  تھے۔ہماری کوئی بہن نہیں ہے۔  میرے بڑے بھائی ( خالد)  جو کہ سرکاری آفیسر بورڈ آف ایوینیو میں سپریڈنٹ کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ ان کے دورانِ سروس ان کو  دو عدد پلاٹ آ لاٹ ہوئے تھے۔ بھائی صاحب 1995  میں فوت ہوگئے ان کے ورثان میں بیوہ (فاطمہ)  اور ایک بیٹی ( زینب)  ہے۔آپ سے درخواست ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق بھائی ( خالد)  کی وراثت کی تقسیم کیسے کی جائے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مرحوم کی وراثت کی تقسیم یوں ہوگی کہ وراثت کے کل 16 حصے کیے جائیں گے جن میں سے زوجہ( فاطمہ ) کو 2 حصے (12.5 فیصد)، بیٹی  ( زینب) کو 8 حصے (50 فیصد) اور دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو 3-3 حصے (18.75 فیصد فی کس) ملیں گے۔

صورت  تقسیم درج ذیل ہے:

8×2=16

زوجہبیٹیدو بھائی
8/12/1عصبہ
143
1×24×23×2
286
283+3

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved