• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

چلی جاؤ

استفتاء

 ایک بندہ سابقہ زندگی میں چرس کا استعمال کرتارہا تقریباً8۔10 سال سے اس نے یہ عمل ترک کیا اس کے بیان کے مطابق اس کے بعدسے صورت حال ذاتی بہتر نہیں۔ میں نے اس سے بارہا کلام کیا بظاہر تو کلام بڑی عمدہ ہے لیکن بقول ان کے خواہ مخواہ طلاق کے الفاظ بیوی سے متعلق اس کی زبان پر جاری رہتےہیں۔ ہر وقت اس سے متعلق خیالات اس کے علاوہ بھی اس کی صورت حال نفسیاتی لحاظ سے بہتر معلوم نہیں ہوتی۔ اور اس خیال کو دور رکھنے کے لیے جان چھڑانے کے لیے بہت کوشش کرتاہے لیکن نہیں چھوٹتی۔ پہلے بھی اس نے تحریرا تین طلاق بیوی کو دیں اسی صورتحال میں ، تو مفتیان عظام کراچی سے طلاق کا فتوی لیکرحلالہ کرایا گیا۔ لیکن بعد ازاں اسکی صورتحال اب باربار اسی عمل پر مجبورکرہی ہے۔ اس کی زندگی کی ایک اہم پریشانی یہ معلوم ہوتی ہے۔کیونکہ دوسری طرف اس بات پربڑاخوش بھی ہے کہ مجھےسے خوش نصیب کوئی نہیں کہ ایک عالم  لڑکی میرے نکاح میں ہے اوربرائیاں مجھ سے دورہوئیں حتے کہ تہجد کی پابندی بھی رہی ہے۔ لیکن یہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے ، میں نے اس کو میڈیکل کرانے کا مشورہ دیا تو ڈاکٹران نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہسپتال میں کچھ عرصہ داخل رہنے کا مشورہ دیاتاہم یہ فرد اس ڈاکٹری رپورٹ کے ساتھ واپس آیا توساتھ یہ مسئلہ بھی پیش کیا جو ابھی ارسال ہے ۔ بلکہ یہ مسئلہ پہلے اس نے دیا میں اس کی صورتحال دیکھ کر ہی مشورہ دیا کہ پہلے دماغی رپورٹ لو۔

اس شخص نے اس وقت اپنی بیوی کو کہاغصے میں کہ” چلی جاؤ” اب اس کو یہ معلوم نہیں کہ میری نیت کیاتھی کہ کہاں چلی جاؤ۔ اس  سلسلہ میں اس فرد کی تمام متوشوش صورتحال کو مدنظرفرماتے ہوئے حکم شرعی صادر فرمائیں۔

                                         شوہر کا بیان

12اکتوبر2009 کو میری شادی ہوئی ،دسمبر میں مجھے ایک اچانک خیال آیا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیتاہوں  اور یہ خیال اتنا اثر کر گیا کہ اچانک میں زبان سے وقفے وقفے سے یہ الفاظ کہنا شروع ہوگیا اور دل میں یہ بات کہتارہا کہ طلاق کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ طلاق دینے سے ہوتی ہے۔ اور جب خداکے خوف سےیہ مسئلہ مفتیان کرام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ طلاق واقع ہوگئی ہے ۔ اس کے بعد حلالہ کرادیا توپھر یہ الفاظ میرے دل اور میرے ذہن اور میری زبان میں سوار ہیں میں نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی ،علماء کرام سے بھی پوچھا۔ مگر کوئی فرق نہیں پڑا میری یاداشت میں بھی یہ الفاظ سوار تھے ،اب میں نے غصہ میں بیوی سے کہا کہ” چلی جاؤ” لیکن یہ پتا نہیں چلتا کہ تعلق ختم کرکے جاؤ یا کہ نہیں پھر ایک دن اس نے پتا نہیں کیا اور میں نے اسے کہا کہ چلی جاؤ جاتی کیوں نہیں۔ پھر یہ مسئلہ مفتیان کرام تک پہنچایا اور انہوں نے مجھے میڈیکل کے لیے بھیجا او ر میں چلاگیا ڈاکٹر صاحب سے میں نے مشورہ کیا اور انہوں نے مشین کے ذریعے مجھے چیک کیا اور مجھے کہا کہ تمہارے دماغ میں مٹی ہے تم کو غلط قسم کے خیالات آتے ہیں تم کو داخل ہونا پڑے گا۔ اس سب باتوں سے قبل میں تقریباًآٹھ یا دس سال تک چرس کا نشہ کیا اور ڈاکٹر صاحب سے تین چار مرتبہ میں نے یہ بھی کہاکہ میں نے دودفعہ اس سے پہلے طلاق دیدی یعنی” طلاق واقع ہوئی او رانہوں نے مجھے کہ یہ طلاق غلط ہوئی  ہے صحیح نہیں ہوئی”۔

ذاتی صورتحال یہ ہے کہ دل ودماغ سوزش اور خیال کی سب چیزیں مجھ پر بھاری ہیں اور کبھی کبھی اپنے آپ کو تھپڑ بھی مارتاہوں  اکثر بہت پریشان رہتاہوں بہت کوشش کرنے کے باوجود یہ الفاظ کہتارہتاہوں غصے کو قابومیں نہیں رکھ سکتا،چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آجاتاہے۔ پتا نہیں یہ الفاظ میری سوچ میں اتنا کیوں آتے ہیں۔ ان الفاظ کو بہت سوچتاہوں جبکہ اور کوئی بات ذہن میں آتی ہی نہیں۔ کیا کروں اور   رو رو کر تھک چکا ہوں کہ دس ماہ کے اندر اندر دوسرا بڑاواقعہ پھر پیش آگیا ہے میں نے چرس جب سے چھوڑی  اس کے بعد ڈاکٹر سے رجوع نہیں کیا کیونکہ مجھے اس قسم کے واقعات کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔جزاک اللہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

"چلی جاؤ” کے الفاظ کے ساتھ جب واضح طورسے طلاق کی نیت نہیں تھی تو طلاق نہیں ہوئی۔

نوٹ: البتہ شوہر کو اپنی بیوی کے سامنے طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دینی ہوگی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved