- فتوی نمبر: 23-79
- تاریخ: 30 اپریل 2024
استفتاء
کسی نے کہا ہے کہ چاول حضور ﷺ کے زمانے میں نہیں تھے اور حضور ﷺ سے چاول کھانا ثابت بھی نہیں ہے اس حال میں بھی بعض لوگ ہاتھ سے کھانے کو بہتر سمجھتے ہیں اور بعض دیکھنے والوں کو اس سے کراہت ہوتی ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ چاول چمچ سے کھا نا بہتر ہے ۔ کیا یہ درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
چاول حضور ﷺ کے زمانے میں تھے یا نہیں ؟اسی طرح حضور ﷺسے چاول کھانا ثابت ہے یا نہیں؟ اس کی تو ہمیں تحقیق نہیں، تاہم اگر حضور ﷺکے زمانے میں چاول نہیں تھے یا تھے لیکن آپ ﷺسے چاول کھانا ثابت نہیں تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ چاول چمچ سے کھانا بہتر ہے، درست نہیں ورنہ تو چاول کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے، بسم اللہ پڑھنے یا کھانے کے دیگر آداب سے بھی چھٹی کرنے کی بھی راہ نکل آئے گی ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہاتھ سے کھانے میں ایسی صورت نہ اختیار کی جائے جس سے دیکھنے والوں کو کراہت ہو اور چمچ سے کھانے کو ناجائز بھی نہ سمجھا جائے۔آپ کے مسائل اور انکا حل (7/169)میں ہے:سوال:ایسے تر کھانے (چاول ، دلیہ ،رائتہ )جو ہاتھ سے کھائے جائیں تو ایک تو ہاتھوں کے خراب ہونے کا خطرہ ہو اور دوسرا اس میں ہاتھوں کے ناخنوں کی گندگی شامل ہونے کا احتمال ہو مکمل پاکیزگی کے اصول اور نظریے کو مد نظر رکھتے ہوئے دھات کے ایسے چمچوں کے ساتھ کھا ئے جا سکتے ہیں جنکو استعمال سے قبل گرم پانی اور صابن کی مدد سے اچھی طرح صاف کر لیا گیا ہو کیا اس صورت میں چمچوں کا استعمال خلاف سنت و شریعت تو نہ ہوگا ؟جواب:ہاتھوں کی گندگی کا فلسفہ جو آپ نے بیان فرمایا ہے وہ تو لائق اعتبار نہیں شریعت کا حکم یہ ہے کہ کھا نے سے پہلے ہاتھ خوب اچھی طرح دھوئے جائیں اس کے بعد ان اوہام و وساس کا کوئی اعتبار نہیں کہ کچھ نہ کچھ گندگی ہاتھوں میں ضرور رہ گئی ہو اس لئے مکمل پاکیزگی کے اصول اور نظریے کو مد نظر رکھتے ہوئے ہاتھ کی بجائے چمچے کے استعمال کو ترجیح دینا محض توہم پرستی ہے تاھم چمچے کے ساتھ کھانا جائز ہے خصوصا کھانا اگر ایسا سیال ہو کہ ہاتھ سے کھا نا مشکل ہو تو ایک درجہ میں عذر بھی ہے ورنہ اصل سنت یہی ہے کہ کھا نا ہاتھ سے کھایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved