• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

چندہ کی بقایا رقم،مدرسہ کی رقم سے مہمان نوازی اور مدرسہ کی روٹیوں کے ٹکرے بیچنے کا حکم؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

(1) مہتمم صاحب بالغ طلبہ کو ان کے والدین کی اجازت سے پکنک کے لیے لے جاتے ہیں اور خرچے کے طور      پر ان سے فی کس کچھ رقم جمع کرتے ہیں  ،طعام اور سفر خرچ کے بعد کچھ رقم بچ جاتی ہے ،آیا یہ باقی ماندہ رقم مہتمم صاحب  طلبہ کو واپس کریں یا خود بھی رکھ سکتے ہیں ؟

(2)مہتمم صاحب مدرسے کے فنڈ سے مہمانوں  کو کھانا کھلا سکتے ہیں یا نہیں ؟ مہمان مدرسے کے ہوں یا ذاتی ہوں دونوں صورتوں میں کیا حکم ہوگا؟

(3)مدرسے میں طلبہ کے لیے کھانا پکتا ہے یا کبھی باہر سےآجاتا ہے ،طلبہ اس میں سے ٹکڑے بچادیتے ہیں ،تو  ایسی صورت میں مہتمم صاحب یہ ٹکڑے بیچ کر ان کی رقم مدرسے میں خرچ کریں گے یا اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتے ہیں ؟ نیز اسی طرح مہتمم صاحب یا نگران ،یا کوئی بھی استاذ یہ ٹکڑے اپنے گھر لے جاسکتا ہے؟ مفصل جواب عنایت فرمادیجیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مہتمم صاحب طعام اور سفر خرچ کا انتظا م طلبہ کے وکیل ہونے کی حیثیت سے کرتے ہوں  تو باقی ماندہ رقم خود نہیں رکھ سکتے اور اگر طلبہ کے اجیر ہونے کی حیثیت سے کرتے ہیں یعنی طعام اور سفر خرچ کی ذمہ داری مہتمم صاحب کی ہو وہ چاہے جیسے کریں اور اس مد میں فی طالب علم ایک مخصوص رقم طلبہ سے لیں تو باقی ماندہ رقم خود رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں پہلے سے واضح کردیں کہ طعام اور سفر خرچ کا انتظام کرنا مہتمم کی ذمہ داری ہے۔

(2)مدرسے کے مہمانوں کو متوسط درجے کا کھانا کھلا سکتے ہیں ذاتی مہمانوں کو نہیں کھلا سکتے ۔

(3)مدرسہ کے ٹکڑے بیچ کررقم  مدرسہ ہی   میں استعمال کی جائے گی،مہتمم ،استاد ،یا نگران وہ ٹکڑے یا ان کی رقم ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتا ۔

(2)فتاوی رحیمیہ ( 9/ 97) میں ہے:

سوال  :مدارس میں  کبھی کبھی کسی عالم کو بلایا جاتا ہے ، یا وہ خود تشریف لے آتے ہیں  ، اسی طرح کبھی مدرسہ کے کسی ہمدرد کو مدرسہ کے مفاد کے پیش نظر دعوت دے کر بلایا جاتا ہے ، تو ان مہمانوں  پر مدرسہ کے خزانے میں  سے خرچ کر سکتے ہیں  یا نہیں  ؟ اور کبھی آنے والے بزرگ سے لوگ استفادہ کی نیت سے مدرسہ آجاتے ہیں  تو آنے والوں  کو مدرسہ کا کھانا کھلا سکتے ہیں  یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔

جواب :اگر چندہ دہند گان کی اجازت اور ضا مندی صراحۃً یا دلالۃًہوتو ان مخصوص لوگوں  کی مہمان نوازی جن کی ذات سے مدرسہ کو معتدبہ نفع کی توقع ہودرست ہے ورنہ مہتمم اوراہل شوریٰ اپنے پاس سے خرچ کریں  ۔ فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔

(2)فتاوی قاسمیہ ( 3/157) میں ہے:

سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : کیا مدرسہ کے فنڈ سے مہتمم ضیافت کرسکتا ہے، چاہے ضیف سید ہو، تاجر ہو، عامی ہو، غیر عامی ہو، غریب ہو؟

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مدرسہ کو نفع کی توقع ہو اور چندہ دہندگان کی طرف سے صراحتاً یا دلالۃً اجازت اور رضا مندی ہو، تو مہمانوں کی ضیافت مدرسہ کی جانب سے کرنا درست ہے، یا مدرسہ میں باضابطہ ضیافت کا الگ سے فنڈ ہو، تو اس فنڈ سے کرنا درست ہے، ورنہ ذمہ دار اپنی جیب سے خرچ کرے۔

(3)کفایت المفتی(7/67) میں ہے:

سوال:مسجد کا پرانا سامان اور ملبہ جو اسی مسجد کی تعمیر جدید میں کام نہ آسکتا ہو فروخت کردینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:مسجد کا پرانا سامان اور ملبہ جو اسی مسجد کی تعمیر جدید میں کام نہ آسکتا ہو ،فروخت کردینا جائز ہے بہتر یہ ہے کہ مسلمان کے  ہاتھ فروخت کیا جائے اور اس کی قیمت کو اسی مسجد کی ضروریات تعمیر میں یا جس قسم کا سامان تھا اسی کے مثل میں صرف کردیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved