• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

چار بیٹے چاربیٹیوں میں تقسیم  میراث کی ایک صورت

استفتاء

ہم دس بہن بھائی  تھے 5بھائی 5بہنیں  ایک بھائی اور ایک بہن والد صاحب کی زندگی میں فوت ہوگئے تھے ان کے بچے موجود ہیں اب آٹھ بہن بھائی زندہ ہیں تین گھر اور دو عدد پلاٹ والد صاحب  نے تقریبا دس سال قبل بھائیوں میں تقسیم کر دیے تھے  اور ان پر قبضہ بھی ہم سب کو کو دے دیا تھا ۔

ایک پلاٹ  پر ہم تین بھائیوں نے دوکانیں بنا رکھی ہیں  اور اس کا مقدمہ چل رہا ہے سپریم کورٹ میں اس کے متعلق والد  صاحب  نے کہا تھا کہ جب تک مقدمہ چل رہا ہے  اس کے تمام اخراجات  تینوں بیٹے  پورےکریں گے اور مقدمہ کے بعد  پانچوں بیٹے  برابر بانٹ لینا ۔

ہمارے والد صاحب  کی دوا راضی تھیں ایک گاؤں میں تقریبا 38 کنال زرعی اراضی ہے جو والد صاحب کے  بعد آپس کے اتفاق رائے سے تمام بہن بھائیوں کے نام منتقل کروائی ہے اور فوت شدہ بہن بھائی کے بچوں کو بھی حصہ دیا گیا ہے۔

دوسری اراضی ہمارے ماموں کے گاؤں میں تقریبا 24 کنال ہے جس میں سے والد صاحب  نے پہلے 8 کنال ماموں کے نام  پر پھر16 کنال والدہ صاحبہ کے نام پر خریدی والد صاحب نے پیسے تو اس کے خود ادا کیے تھے لیکن کچھ قانونی تقاضوں کی وجہ سے   والدہ اور ماموں کے نام کروائی تھی والدہ کی وفات کے بعدان کے نام زمین میں  سے  والد صاحب  نے 12کنال  پانچ بیٹوں کے نام اور 4کنال اپنے نام کروالی 8کنال زمین ماموں کے نام پرہونےکی وجہ سےتقسیم ہونے سے  رہ گئی تھی (ماموں نے بتایا تھا کہ میں نے بینک سے قرضہ لیا ہے اور زمین بینک  کے پاس رہن ہے پھر ماموں بھی فوت ہو گئےتھے )اب ان کے بیٹے نے زمین نام کروانے کا وعدہ کیا ہےجو اب بینک سے چھوٹ کر ہمارے پاس آرہی ہے ۔

مذکورہ صورت  میں ہمارے دو سوال ہیں :

(1)کیا وہ پلاٹ کیس ختم ہونے کی صورت میں والد صاحب کے کہنے کےمطابق صرف بیٹوں میں تقسیم ہوگا یا بیٹیوں میں بھی تقسیم ہوگا ؟

(2)جو آٹھ  کنال زمین ہمارے پاس آ رہی ہے ہم اسے شریعت کے مطابق تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور ہم نے آپس کےاتفاق رائے سے طے کیا ہے کہ فوت شدہ بھائی و بہن کے بچوں کو بھی اس میں سے حصہ دیں گے  لیکن ہماری بہنوں کی خواہش ہےکہ  اس زرعی  زمین میں سے12کنال جووالد صاحب نے صرف بیٹوں کو دی تھی اس میں سے بھی بیٹیوں کو حصہ ملنا چاہیےحالانکہ والد صاحب کی زندگی میں بھی بیٹیوں  نے والد صاحب سے کہا تھا کہ آپ نے 12کنال صرف بیٹوں کے نام کیوں لگوائی  ہے؟ تووالد صاحب  نے کہا تھا کہ میں مالک ہوں   جس کو چاہوں دوں،تو کیا وہ 12کنال زمین میں سےبھی بیٹیوں کو  حصہ دینا ہو گا ؟

وضاحت مطلوب ہے (1) جس پلاٹ پر تین بھائیوں نے دکانیں  بنا رکھی ہیں  ان پر مقدمہ کس وجہ سے چل رہا ہے ؟

(2)مذکورہ تحریر پر دیگر بہن بھائیوں کے دستخط کروائیں  ؟

(3)والد صاحب نے12کنال  زمین صرف بیٹوں کے نام ہی لگوائی تھی یا اس پر قبضہ بھی دے دیا تھا؟

جواب وضاحت :(1) تفصیل کیس : 1970ءمیں والد صاحب نے یہ جگہ خریدی تھی  اس کے کافی عرصہ  بعدکیس ہوا  ،ہم نے وہ زمین محکمہ ہاؤسنگ سے خریدی تھی جبکہ ہاؤسنگ والوں کے خلاف  گورنمنٹ نے دعوی کیا ہے کہ یہ جگہ آپ کی ملکیت نہیں تھی  اس لیے آپ اسے بیچنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے اس  کیس  کا فیصلہ بھی ایک مرتبہ ہمارے حق میں ہو چکا ہے لیکن اب دوبارہ پھر کیس ہو گیا ہے اور وہ بھی چل رہا ہے اس کا عنقریب ہمارے حق میں فیصلہ ہونے والا ہےاور اس پلاٹ  پر تین بھائیوں نے دکانیں  بنا رکھی ہیں ۔

(2)جو قریب تھے ان کے دستخط تحریر پر موجود ہیں اور جو دور ہیں ان کے دستخط نہیں کروا سکے۔

(3)صرف نام لگوائی تھی زبانی طور پر ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا تھا البتہ جب بہنوں کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے یہ کہا تھا کہ آپ نے یہ زمین صرف بیٹوں کے نام کیوں لگوائی ہے جس پر والد صاحب نے یہ کہا تھا کہ میں مالک ہوں   جس کو چاہوں دوں۔ اور نہ ہی والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہمیں اس پلاٹ  پر   قبضہ  دیا تھا اور ہمارے نام لگوانے کے بعد بھی  اس زمین  کا ٹھیکہ بھی تا حیات وہ خود ہی وصول کر تے رہے ہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)مذکورہ پلاٹ   جس کے بارے میں آپ کے والد صاحب نے یہ کہا تھا کہ مقدمہ کے بعد پانچوں  بیٹے برابر بانٹ لینا یہ ان کی وصیت ہے ۔وصیت جب وارثوں کے لئے کی جائے تو تمام ورثاء کی رضامندی کے بغیر جاری نہیں ہوتی لہذا اگرتمام ورثاءراضی ہوں تو وہ پلاٹ پانچ بیٹوں کا ہوگا۔

(2)  آٹھ کنال زمین  جوبینک سے واپس  ملے گی وہ  تمام وارثوں  میں ان کے   شرعی  حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہوگی۔ اور   12کنال زمین جووالد صاحب نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کے صرف نام  لگا ئی تھی لیکن انہیں کبھی  زبانی ہدیہ نہیں کی تھی  اور   نام کروانے کے بعد بھی وہ خود ہی اس میں تصرف کرتےرہے ہیں  اور  ٹھیکہ بھی خود ہی وصول کرتے رہے ہیں اور بیٹوں کو  اس پرباقاعدہ قبضہ بھی  نہیں دیا تھا   اس سے وہ زمین بیٹوں کی نہیں ہوئی کیونکہ قبضہ کے بغیر ہدیہ مکمل نہیں ہوتا لہذا وہ 12 کنال زمین بھی والد صاحب کا ترکہ شمار ہوگی  جسے تمام ورثاء آپس کی رضا مندی سے چاہیں تو والد صاحب کے نام کروانے کے مطابق صرف بیٹوں میں بھی تقسیم کر سکتے ہیں ورنہ تمام وارثوں میں ان کے  شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہوگی ۔

فتاوی شامی (10/365)میں ہے:(ولا لوارثه ۔۔۔(إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام: لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة يعني عند وجود وارث آخرفتاوی شامی (8/575)میں ہے:قوله ( المعارة ) أي لو وهب طفله دارا يسكن فيها قوم بغير أجر جاز ويصير قابضا لابنه لا لو كان بأجر كذا نقل عن الخانيةبحر الرائق (5/ 293)ميں ہے:لو قال جعلته باسمك لا يكون هبةشرح المجلہ(رقم المادہ837)میں ہے:تنعقد الهبة بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنها من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض”.نوٹ :مذکورہ جواب اس صورت میں  ہے جب تمام ورثاءسوال میں دی گئی تفصیل سے متفق ہوں اگر کل یا بعض ورثاء کو مذکورہ تفصیل سے اختلاف ہوا تو مذکورہ جواب کالعدم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved