- فتوی نمبر: 34-80
- تاریخ: 16 اکتوبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
غیر شادی شدہ عورت کا انتقال ہوا، اس کے ورثاء میں ایک پھوپھی ، ایک چچا کی بیٹی اور دو ماموں کے بیٹے ہیں۔ ان ورثاء کے علاوہ میت کا کوئی اور وارث نہیں ہے شرعی طریقے سے میراث کی تقسیم کیسے ہوگی؟
وضاحت مطلوب ہے: مرحومہ کے بھائی یا بھتیجے موجود ہیں یا نہیں؟اگر وہ نہیں ہیں تو مرحومہ کے دادا یا چچا یا ان کے بیٹے ہیں یا نہیں؟ اور اگر یہ بھی نہیں تو کیا دادا سے اوپر یعنی دادا کے چچا،تایا یا ان کی نرینہ اولاد یا نرینہ اولاد کی نرینہ اولاد بھی نہیں ہے؟
جواب وضاحت:بھائی، بہن نہیں ہیں۔بھائی غیر شادی شدہ تھا۔چچا کی ایک بیٹی ہے اور چچا فوت ہوگیا ہے ۔مرحومہ کے دادا یا چچا بھی نہیں ہیں اور نہ انکے بیٹے ہیں اور نہ دیگر پوچھے گئے رشتہ دار موجود ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مرحومہ کا کل ترکہ اس کی پھوپھی کو ملے گا۔ باقی ورثاء کو کچھ نہیں ملے گا۔
توجیہ: مرحومہ کے مذکورہ ورثاء ذوی الارحام میں سے ہیں بعض میت کے قریب کے رشتے دار ہیں اور بعض میت کے دور کے رشتے دار ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ قریب کا وارث دور والے کو میراث سے محروم کردیتا ہے۔ ويحجب أقربهم الابعد اور مرحوم کے مذکورہ ورثاء میں سے پھوپھی سب سے قریب وارث ہے کیونکہ یہ مرحومہ کے باپ کی بہن ہے اور باقی دور والے ہیں کیونکہ چچا کی بیٹی مرحومہ کے باپ کے بھائی کی بیٹی ہے اور باپ کے بھائی کی بیٹی باپ کی بہن سے رشتہ میں زیادہ دور ہے اسی طرح ماموں کے بیٹے مرحومہ کی والدہ کے بھائی کے بیٹے ہیں اور مرحومہ کی والدہ کے بھائی کے بیٹے مرحومہ کے باپ کی بہن سے رشتہ میں دور ہیں لہٰذا پھوپھی کی موجودگی میں دیگر ورثاء کو کچھ نہیں ملے گا۔
شرح مختصر الطحاوی للجصاص (4/128) میں ہے:
ومواريث ذوي الأرحام مستحقة بالقرب، كما تستحق بالعصيب، فلا يرث الأبعد مع الأقرب.وكذلك: (العمة هي أولى من ابن الخال)، لقربها.
امداد الفتاوی جدید(9/585) میں ہے:
سوال: شرع محمدی کا مسئلہ یہ ہے کہ جب عصبہ نہ ہو ں توذوی الارحام وارث ہوتے ہیں ، لیکن یہ امر نا ممکن ہے کہ کسی متوفی کا کوئی عصبہ نہ ہو، اگر حضرت آدم علیہ السلام کا رشتہ لگایا جاوے، مثلاً ایک علوی یا صدیقی وغیرہ کا انتقال ہوا، ایک غاصب نے متوفی کی جائیداد پر قبضہ حاصل کر لیا تب ذوی الارحام نے دعویٰ متروکہ کا کیا، غاصب یہ کہتا ہے کہ تم اس وقت وارث ہو سکتے ہو کہ جب عصبہ نہ ہو، علوی اور صدیقیوں کے بہت سے خاندان دنیا میں موجود ہیں ، جب تک وہ موجود ہیں تم بحیثیت ذوی الارحام کے وارث نہیں ہو سکتے ہو تو ایسی حالت میں ذوی الارحام کو عصبہ کا عدم کس طرح ثابت کرنا چاہیے، یہ ظاہر ہے کہ عصبہ کا عدم ثابت کرنا قریب قریب محال ہے، تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ذوی الارحام متوفی کے متروکہ کا کبھی وارث نہ ہوں ، یہ بات اگر چہ خلاف عقل ہے، لیکن اس کے لئے فقہ کی کسی مستند کتاب کی ضرورت ہے، عنایت فرما کے فقہ کی کتب کے حوالہ سے جواب تحریر فرما کر ممنون فرمائیے؟
الجواب : اس غاصب کے استدلال باطل کا یہی جواب کافی ہے کہ شریعت نے ذوی الارحام کو بھی وارث بنایا ہے ورنہ اگر عصبہ میں اس قدر تعمیم ہوتی تو ذوی الارحام کے وارث ہونے کے کوئی معنی ہی نہ ہوں گے اس کو خود شریعت باطل کر رہی ہے، اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہوگی ا ور جو ائمہ توریث ذوی الارحام کے قائل نہیں ہیں انہوں نے بھی کبھی یہ دلیل بیان نہیں کی،ا ور اس کے بعد کے مستحقین کو میراث دلائی حتیٰ کہ اخیر میں بیت المال مستحق قرار پایا تو یہ سب احکام جو نصاً واجماعاً ثابت ہیں سب باطل ہو جاویں گے، اور نص اور اجماع کا ابطال باطل ہے۔ اور جو دعویٰ مستلزم امر باطل کو ہو وہ خود باطل ہے، معلوم ہو ا کہ یہ استدلال او دعویٰ غاصب کا باطل ہے، تمام کتب فرائض و فقہ کی تصریح کے موافق کل عصبات یہ ہیں :
(۱) ابن ثم ابن الابن وإن سفل۔(۲) أب ۔ (۳) جد صحیح وإن علا حتی إلی آدم عليه السلام۔(۴) جزء الأب وإن سفل۔(۵) جزء الجد یعنی عم ثم ابنه وإن سفل۔ (۶) عم الأب ثم ابنه وإن سفل۔ (۷) عم الجد ثم ابنه وإن سفل۔ بس اس پر عصبات ختم ہوگئے۔
مفید الوارثین (ص:210) میں ہے:
چھٹا باب ذوی الارحام کا بیان:
یہ بحث نہایت دشوار اور عام لوگوں پر اس کا سمجھنا مشکل ہے اور ضرورت بھی کم پڑتی ہے اس لیے کہ ابھی بیان ہوا ہےکہ کوئی نہ کوئی عصبہ ہر میت کا ضرور موجود ہوتا ہے۔ پہلے دوسرے دسویں بیسویں پشت کا شریک اگر موجود بھی نہ ہو تو ایسا کون شخص ہے جس کے 200،60،50اوپر کے پشت میں بھی کوئی شریک نہیں ………….چونکہ یہ معلوم ہونا دشوار ہوتا ہے کہ کون شخص کس پشت میں شریک ہے اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ موجود ہی نہیں ایسی صورت میں ذوی الارحام وارث ہوتے ہیں۔
مفید الوارثین (ص:182) میں ہے:
درجہ چہارم کی پہلی قسم: مامو ں خالہ، اخیافی چچا۔
اس درجے کے دو نمبر ہیں: الف وب ۔
پہلی قسم (نمبر الف) باب کی طرف سے حقیقی پھوپھی، علاتی پھوپھی ، اخیافی پھوپھی، اخیافی چچا ۔
پہلے قسم (نمبر ب) ماں کی طرف کے حقیقی ماموں ، علاتی ماموں، اخیافی مامو ں، حقیقی خالہ، علاتی خالہ، اخیافی خالہ۔
درجہ چہارم: اس پہلے قسم میں دس قسم کے وارث ہیں یعنی نمبر الف میں باپ کی طرف کے چار اور نمبر ب میں والدہ کی طرف کے چھ کل دس طرح کے وارث ہوئے۔
درجہ چہارم: دوسری قسم چچاؤ ں اور پھوپھیوں کی اولاد، ماموں اور خالاؤں کی اولاد یہ تفصیل ذیل قسم دوم (نمبر الف ) باب کی طرف کےحقیقی چچا کی بیٹیاں۔ حقیقی پھوپھی کی اولاد( بیٹا، بیٹی)، علاتی خالہ کے بیٹا، بیٹی ،اخیافی ماموں کے بیٹا بیٹی، اخیافی خالہ کے بیٹا، بیٹی۔
جب ان سے پہلے قسم کا کوئی وارث موجود نہ ہو تو مندرجہ ذیل قواعد کےموافق ان پر میرا ث تقسیم ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved