• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

چہرے اور ہاتھوں کے پردے کا حکم

  • فتوی نمبر: 4-182
  • تاریخ: 14 اگست 2011

استفتاء

"چہرے اور ہاتھوں کے پردے کا اختلاف "۔ سورہ نور تفسیر معارف القرآن میں پردے کی آیت کے ضمن میں "إلا ما ظهر منها” کی تفسیر میں دو صحابہ کی رائے بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، اس سے یہ مراد لیے ہیں۔ ( علی الترتیب ) چہرہ اور ہاتھ۔ اوپر کی چادر۔ جو لوگ شرعی پردہ کرتے ہیں کیا ان کے لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر پرعمل کرنا جائز نہیں ہے؟ جبکہ ہیں تو دونوں صحابہ، پھر ہم کسی ایک کے قول پر سختی سے عمل کرتے ہیں؟ تسلی بخش جوا ب تحریر کردیں کیونکہ دو قول ملنے کے باعث ذہنی الجھن ہے کہ آخر درست عمل کونسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مسلمان خاتون کے لیے پردے کے چند درجے ہیں اور اپنی جگہ سب ہی واجب ہیں۔

پہلا درجہ تو یہ ہے کہ سوائے چہرے اور ہتھیلیوں اور پیرروں کے باقی تمام بدن کو کپڑے سے چھپایا جائے۔ یہ درجہ اپنی ذات سے واجب ہے اس لیے اس کا حکم جوان اور بوڑھی عورتوں سب کو شامل ہے۔ البتہ بوڑھی عورتوں کو یہ رخصت ہے کہ وہ صرف اس درجہ کے پردے پر اکتفاء کریں۔ کیونکہ ان میں  فتنے کا اندیشہ نہیں ہے۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ چہرے کو بھی برقعہ وغیرہ سے چھپایا جائے۔ اور چونکہ جوان اور ادھیڑ عمر کی عورتوں میں فتنہ کا اندیشہ ہے اس لیے پردے کا یہ درجہ ان کے لیے واجب  اور ضروری ہے۔ ( فہم حدیث: 3/ 407 ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved