• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

چہرے پرنقوش کےبغیر گڑیوں سے کھیلنے کاحکم

استفتاء

(۱)حضرت معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا اس طرح کی گڑیا بچوں کو کھیلنے کے لیے دینا درست ہے جس کے چہرے کے نقوش نہ ہوں بالکل سپاٹ چہرہ ہو؟(۲)حدیث میں جو امی عائشہ ؓ کے گھوڑے یا گڑیا کا ذکر ہے وہ کس نوعیت کی تھی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔درست ہے اور ایسی گڑیا تصویر کے حکم میں نہیں ہے۔

۲۔وہ بھی اسی نوعیت کی تھی کہ اس کے چہرے کے نقوش واضح نہیں تھے۔

فی فقه البیوع :1/319

وقد استثنی منها ابویوسف رحمه الله تعالی اللعب التی تلعب بها البنات ۔وقال ابن عابدین رحمه الله ونسبته الی ابی یوسف لاتدل علی ان الامام (یعنی الامام اباحنیفة)یخالفه ،لاحتمال ان لایکون له فی المسألة قول،فافهم

والاصل فی هذاالباب ماروی ان عائشة رضی الله عنها کانت لها لعب بنات تلعب بها فذهب جماعة من العلماء الی جواز اللعب المصورة للصبیان وجواز بیعها وشراءها علی اساس هذاالحدیث وبه جزم القاضی عیاض وابویوسف رحمهما الله تعالی ۔وحمله بعض المالکیة ،مثل ابن بطال رحمه الله تعالی علی انه کان قبل منع الصور فهو منسوخ واوله المنذری والحلیمی بانها لم تکن مصورة فیحتمل ان تکون قطعات من الثیاب قطعت بما ظهر فیها الایدی والارجل دون الوجه وحمله الخطابی علی ان الجواز لغیر البالغین علی اساس انهم غیر مکلفین ثم  الظاهر ان من اجاز هذه اللعب للبنات فانما اجاز اللعب الصغیرة التی لاتشابه الاصنام ۔اما اللعب الکبیرة التی شاعت فی عصرنا فهی مشابهة للاصنام تماما وغالب ظنی انه لو رآها المجیزون لحکموا بمنعها ۔فقط والله تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved