- فتوی نمبر: 9-344
- تاریخ: 05 اپریل 2017
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ایک پٹرول پمپ ہے دن بھر سے لے کر رات سیل کے ذریعے جو کیش ہمارے پاس جمع ہوتا ہے وہ ان لوگوں کو دیتے ہیں جو بیرون ملک یا دوسری کمپنیوں سے کاروبار کرتے ہیں اور وہ لوگ ہمیں اس کیش کے بدلے میں چیک دیتے ہیں جس پر کیش کے برابر رقم لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو بینک جا کر پیسے لینے نہیں پڑتے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ہمارے ہاں پمپ والے چیک کے بدلے میں کیش دینے پر نفع لیتے ہیں مثلاً ایک لاکھ کا چیک ہے تو اس کو ننانوے ہزار روپے دیتے ہیں اور چیک والے بھی اسے بخوشی قبول کر لیتے ہیں کیونکہ انہیں بینک جانے کی جھنجھٹ میں پڑنا نہیں پڑتا۔ آپ حضرات رہنمائی فرمائیں کیا ہمارا اس طرح نفع لینا جائز ہے یا نہیں؟ تاکہ شریعت کے مطابق عمل کر سکیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ننانوے ہزار روپے دے کر ایک لاکھ کا چیک لینا جائز نہیں کیونکہ ایک ہی ملک کی کرنسی کی خرید و فروخت میں دو چیزیں ضروری ہیں:
1۔ دونوں کرنسیوں پر مجلس عقد ہی میں قبضہ ہو جائے لا لأنه صرف بل لأنه جنس واحد واتحاد الجنس بإنفراده يحرم النسيئة ولو من جانب واحد.
2۔ یہ تبادلہ برابری کے ساتھ ہو۔
مذکورہ صورت میں یہ دونوں شرطیں مفقود ہیں لہذا مذکورہ معاملہ جائز نہیں۔
بدائع الصنائع (5/237) میں ہے:
تبايعا فلساً بعينه بفلس بعينه فالفلسان لا يتعينان وإن عينا إلا أن القبض في المجلس شرط حتى يبطل بترك التقابض في المجلس لكونه افتراقا عن دين بدين ولو قبض أحد البدلين في المجلس فافترقا قبل قبض الآخر ذكر الكرخي أنه لا يبطل العقد لأن اشتراط القبض من الجانبين من خصائص الصرف وهذا ليس بصرف فيكتفي فيه بالقبض من أحد الجانبين لأنه يخرج عن كونه افترقا عن دين بدين وذكر في بعض شروح مختصر الطحاوي أنه يبطل لا لكونه صرف بل لتمكن ربا النساء فيه لوجود أحد وصفي علة ربا الفضل وهو الجنس…………. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved