- فتوی نمبر: 13-326
- تاریخ: 06 فروری 2019
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک آدمی کے پاس پانچ لاکھ کا چیک ہے یا رسید ہے لیکن کاروبار کرنے کے لیے اس کے پاس رقم نہیں ہے اب وہ کسی دوسرے آدمی سے کہتا ہے کہ آپ مجھے چار لاکھ پچھترہزار روپے دیدیں تاکہ میں کاروبار کرلوں ۔آپ یہ رسید یا چیک لے لیں یا جب مجھے اس رسید یا چیک سے پانچ لاکھ روپے ملے گاتو میں آپ کو پانچ لاکھ روپے دیدونگا۔آیا یہ مذکورہ صورت شریعت کی رو میں ٹھیک ہے یا نہیں؟چونکہ کاروباری لوگوں کے ہاں یہ کام ہوتا رہتا ہے ۔
وضاحت مطلوب ہے :
کہ آپ کا سوال مبہم ہے ۔کیا دوسرے شخص سے پیسے بطور قرض لیے جاتے ہیں یا انویسٹمنٹ ہوتی ہے یعنی نفع نقصان کی بنیاد پر رقم لی جاتی ہے؟
جوا ب وضاحت :
اصل میں جو چیک والا شخص ہے اس کے پاس نقدی پیسے نہیں وئے اور چیک اور رسید کی تاریخ وصولی ذرا موخرہوتی ہے اس لیے یہ معاملہ کیا جاتا ہے گویا کہ چیک بیچ دیا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت کسی طور پر جائز نہیں خواہ چار لاکھ پچھتر ہزار روپے لیکر پانچ لاکھ کا چیک یا رسید دیںیا بعد میں رسید یا چیک کے پیسے خود وصول کرے دیدیں۔کیونکہ اس صورت کو اگر بیع پر محمول کریں تو اس میں مندرجہ ذیل خرابیاں ہیں:
۱۔ یہ صورت بیع الدین من غیرمن علیہ الدین کی ہے جو کہ جائز نہیں۔
۲۔ یہ صورت ایک ہی کرنسی کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنے کی ہے جو کہ ناجائز ہے ۔
۳۔ یہ صورت ایک ہی ملک کی کرنسی کی بیع میں ایک جانب سے ادھار کی ہے جو کہ ناجائز ہے۔
اور اگر اس صورت کو قرض پر محمول کریں تو یہ صورت مقروض سے فائدہ اٹھانے کی ہے جو کہ سود ہے اور ناجائز ہے ۔
غرض مذکورہ صورت کسی طرح جائز نہیں
© Copyright 2024, All Rights Reserved