- فتوی نمبر: 5-180
- تاریخ: 28 ستمبر 2012
- عنوانات: عقائد و نظریات > گمراہ افراد، نظریات اور جدید فتنے
استفتاء
کیا حکم ہے شریعت کا مسئلہ ذیل میں کہ ایک عالم دین کتاب مسائل بہشتی زیور پڑھ کر اعتکاف کے مسائل سمجھا رہا تھا کہ یہ مسئلہ بیان کیا کہ غسل جنابت کے علاوہ کوئی بھی غسل مسجد سے باہر جا کر کرنا معتکف کے لیے جائز نہیں۔ اگر ایسا کیا تو اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، اور اس دن کا اعتکاف قضا کرنا لازم ہے، وغیرہ مسائل کے بیان کے دوران معلوم ہوا کہ کچھ معتکفین نے اعتکاف میں جمعہ کے دن مسجد سے باہر جاکر غسل کیا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ ایک دن کا روزہ رکھ کر مسجد میں اعتکاف کی قضا کرنی ہے۔ ان کی میں ایک شخص کہنے لگا” چھوڑو شریعت جانتے ہیں تمہاری شریعت” ۔ اس بات پر اس عالم دین نے مذکورہ شخص کو کہا کہ میں اپنی طرف سے مسئلہ نہیں بتاتا بلکہ یہ کتاب ہے اس میں قرآن و حدیث کے احکام کا بیان ہے۔ ہماری کوئی الگ شریعت نہیں اللہ و رسول ﷺ کے احکام ہی ہماری شریعت ہے۔ وہ آدمی طیش میں آگیا اور کہنے لگا کہ” نہیں مانتا میں تیری شریعت کو”۔ اس بات پر گواہ بھی موجود ہیں۔ اب اس امر کی وضاحت درکار ہے کہ شخص مذکورہ نے واضح شریعت کا انکار کیا اور استخفاف شریعت بھی ہوا ہے۔ یہ بتانے کے باوجود کہ شریعت ہماری نہیں قرآن و حدیث کے احکام اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے احکام ہی ہماری شریعت ہے۔ ہماری کوئی الگ شریعت نہیں۔ اس کے باوجود ڈھٹائی سے شخص مذکور نے کہا کہ” نہیں مانتا میں تیر ی شریعت کو”۔
اس کا شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے؟ واضح شریعت کے استخفاف سے اس پر کیا حکم لگتا ہے؟ اور اہل اسلام کو ایسے شخص سے کیا برتاؤ کرنا چاہیے۔ جو لوگ ایسے سے حسن سلوک کا معاملہ روا رکھیں ان کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں بولے گئے الفاظ کسی مسلمان کے شایان شان نہیں، کیونکہ شریعت کسی عام انسان یا عالم دین کی نہیں ہوتی بلکہ وہ تو صاحب شریعت یعنی اللہ اور رسول ﷺ کی ہے۔ لہذا اس پر توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔ تاہم ان الفاظ کی وجہ سے قائل پر کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ، کیونکہ اس نے خالی شریعت یا شریعت خداوندی کا لفظ نہیں کہا، بلکہ دونوں جگہ” تیری شریعت” یا "تمہاری شریعت ” کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے مراد مذکورہ مسئلہ ہے پوری شریعت نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved