- فتوی نمبر: 33-358
- تاریخ: 03 اگست 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > اخلاق و آداب
استفتاء
1۔ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ “چھوٹا بڑے کو سلام کرے” کیا یہ حدیث ہے ؟
2۔کسی سے سنا تھا کہ چھوٹا ہو یا بڑا دونوں کو سلام میں پہل کرنی چاہئے کیا یہ بات درست ہے ؟
3۔موبائل پر کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دیناضروری ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔یہ حدیث ہے ۔چنانچہ مسند احمد (رقم الحدیث: 5880) میں ہے :
عن أبي هريرة قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يسلم الصغير على الكبير، والمار على القاعد، والقليل على الكثير
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے اور گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں ۔
2۔مذکورہ بات درست نہیں ہے بلکہ چھوٹے کا پہل کرنا مستحب ہے۔
لمعات التنقيح فی شرح مشكاة المصابيح (8/ 20) میں ہے:
وعن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إن أولى الناس بالله من بدأ بالسلام”.
أبو أمامة) قوله: (إن أولى الناس باللَّه) أي: أقربهم وأخصهم إليه، والمراد من الناس المتلاقيَين؛ لأنهما متساويان في حق السلام، أما إذا كان أحدهما واردًا والآخر قاعدًا فالتسليم حق الوارد؛ فإذا ابتدأ به لا يكون أولى.
شرح المشكاة للطیبی الكاشف عن حقائق السنن (10/ 3054) میں ہے:
وعن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ((البادئ بالسلام بريء من الكبر)
قوله: (البادئ بالسلام) يراد من تلقى صاحبه وهما سيان في الوصف بأن لا يكون أحدهما راكبا والآخر ماشيا، أو ماشيا والآخر قاعدا إلى غير ذلك كما علم ذلك
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2958) میں ہے:
(عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: البادئ) : بالهمز أي: المبتدئ (بالسلام) : والمبادر إليه من المتلاقيين إذا اتفقا في الوصف كماشيين وراكبين (بريء) : فعيل من البراءة أي: متبرئ ومتنزه (من الكبر) أي: من علته، فالسلام علامة سلامته
فيض القدير(1/ 288) میں ہے:
ويندب إذا التقى اثنان أن يحرص كل منهما على أن يكون البادئ بالسلام وأن يسلم الراكب على الماشي والماشي على الواقف والصغير على الكبير والقليل على الكثير.
3۔موبائل پر کیے گئے سلام کا جواب دینا واجب ہے البتہ اگر موبائل پرکوئی لکھ کر سلام کرے تو جواب لکھ کر ہی دینا ضروری نہیں ہے بلکہ زبانی جواب دینا بھی کافی ہوگا ۔
شامی(9/685) میں ہے:
ويجب رد جواب كتاب التحية كرد السلام
(قوله ويجب رد جواب كتاب التحية) لأن الكتاب من الغائب بمنزلة الخطاب من الحاضر مجتبى والناس عنه غافلون ط. أقول: المتبادر من هذا أن المراد رد سلام الكتاب لا رد الكتاب. لكن في الجامع الصغير للسيوطي رد جواب الكتاب حق كرد السلام قال شارحه المناوي: أي إذا كتب لك رجل بالسلام في كتاب ووصل إليك وجب عليك الرد باللفظ أو بالمراسلة
تکملہ فتح الملہم (4/144) میں ہے:
ثم قال النووى رحمه الله تعالى ويشترط كون الرد على الفور ولو اتاه سلام من غائب مع رسول او في ورقة وجب الرد على الفور. ومن هنا قال بعض العلماء إن جواب الرسالة البريدة واجب لانها مشتملة على السلام وفيه نظر لان واجب رد السلام يمكن ان يتأدى باللسان عند قراءة الرسالة فأما إبلاغه إلى المرسل فليس بواجب كما نقلت عن الشيخ التهانوي رحمه الله وحينئذ لا يجب جواب الرسالة البريدة ولا سيما اذا كان يحتاج الى بذل مال.
احسن الفتاویٰ (8/137) میں ہے:
خط کے سلام کا جواب واجب ہے یا نہیں؟ اگر واجب ہے تو کیا فی الفور واجب ہے یا عند الکتاب؟ اگر خط کا جواب دینے کا ارادہ نہ ہو یا خط قابل جواب نہ ہو تو کیا حکم ہے؟
جواب:زبانی یا بذریعۂ خط جواب دینا واجب ہے بہتر ہے کہ فوراً زبان سے جواب دے دیا جائے کیونکہ ممکن ہےخط کے جواب کا موقع نہ ملے تو واجب فوت ہونے کا گناہ ہوگا۔ خط کا جواب دینے کا ارادہ نہ ہویا خط قابل جواب نہ ہو تو فوراً زبان سے جواب دینا واجب ہے ۔قال العلامة الحصكفى رحمه الله ويجب رد جواب كتاب التحية كرد السلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved