- فتوی نمبر: 27-142
- تاریخ: 22 جولائی 2022
- عنوانات: عبادات > نماز > جمعہ کی نماز کا بیان
استفتاء
ہم مین بازار سے تقریباً 15 کلومیٹر دور پہاڑی علاقے میں رہتے ہیں گاؤں کی 5 گاڑیاں ہیں جو گاؤں سے بازار چلتی ہیں گاؤں میں کل تین دوکانیں ہیں گاؤں میں ہم سے اوپر دو چھوٹے چھوٹے اور بھی گاؤں ہیں جو ہمارے ساتھ غم و خوشی میں تعلق رکھتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ (1)کیا ہم اپنے گاؤں میں صرف عید کی نماز شروع کر سکتے ہیں ؟جبکہ ہمارے ہی علاقے میں ہم سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر جمعہ اور عید کی نمازیں ہوتی ہیں وہ بھی اسی طرح دیہاتی علاقہ ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے گاؤں میں صرف عید کی نماز شروع کریں عوام چونکہ اس وقت دین سے دور ہوتی جا رہی ہے تو کیا ہمارے لیے جمعہ یا صرف عید کی گنجائش ہے ؟(2) جمعہ کی شرائط کیا ہیں یہ بھی تفصیل سے قلمبند کریں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)مذکورہ گاؤں میں حنفیہ کے نزدیک جمعہ اور عید کی نماز شروع کرانا درست نہیں ۔
فتاویٰ شامی (8/3) میں ہے:
لا تجوز(أي الجمعة:از ناقل) في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات.
فتاویٰ شامی (6/3) میں ہے:
قال في شرح المنية:والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـ
بدائع الصنائع (585/1) میں ہے:
وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.
(2)جمعہ کی شرائط درج ذیل ہے:
1۔شہر یا قصبہ یا اس کا فنا ہو۔ گاؤں میں یا جنگل میں نماز جمعہ درست نہیں ۔قصبہ اس مستقل آبادی کو کہتے ہیں جہاں ایسا بازار ہو جس میں تیس چالیس متصل اور مستقل دکانیں ہوں اور بازار روزانہ لگتا ہو اور اس بازار میں روز مرہ کی ضروریات ملتی ہوں مثلاً جوتے کی دکان بھی ہو اور کپڑے کی بھی۔ غلہ اور کریانہ کی بھی ہو اور دودھ گھی کی بھی وہاں ڈاکٹر یا حکیم بھی ہو اور معمار و مستری بھی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں وہاں گلی محلے ہوں ۔
2۔ظہر کا وقت ہو۔ پس ظہر کے وقت سے پہلے اور ظہر کا وقت نکل جانے کے بعد نماز جمعہ درست نہیں ۔ حتیٰ کہ اگر نماز جمعہ پڑھنے کی حالت میں وقت جاتا رہے تو نماز فاسد ہو جائے گی اگرچہ قعدہ اخیرہ بقدر تشہد کے ہو چکا ہو اور اسی وجہ سے نماز جمعہ قضا نہیں پڑھی جاتی۔
3۔ ظہر کے وقت میں نماز جمعہ سے پہلے خطبہ یعنی لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔
4۔ جماعت یعنی امام کے سوا کم سے کم تین آدمیوں کا شروع خطبے سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود رہنا گو وہ تین آدمی جو خطبے کے وقت تھے اور ہوں اور نماز کے وقت اور ہوں مگر یہ شرط ہے کہ یہ تین آدمی ایسے ہوں جو امامت کر سکیں ۔ پس اگر صرف عورتیں یا نابالغ لڑکے ہوں تو نماز نہ ہوگی۔اگر سجدہ کرنے سے پہلے لوگ چلے جائیں اور تین آدمیوں سے کم باقی رہ جائیں یا کوئی بھی نہ رہے تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ ہاں اگر سجدہ کرنے کے بعد چلے جائیں تو پھر کچھ حرج نہیں ۔ امام اور باقی نمازیوں کی نماز درست رہے گی۔
5۔عام اجازت کے ساتھ اور اذان و اشتہار کے ساتھ نماز جمعہ کا پڑھنا۔ پس کسی خاص مقام پر چھپ کر نماز جمعہ پڑھنا درست نہیں ۔(مسائل بہشتی زیور292,293/1)
© Copyright 2024, All Rights Reserved