• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

چھوٹی آبادی میں جمعہ کروانا

استفتاء

ایک بڑا قصبہ “آرائیں واہن ” ہے جس میں چار جگہ جمعہ ہوتا ہے اس کے جنوبی کنارے سے متصل قبرستان ہے جس کی دیوار سے 10 ایکڑ کے فاصلے پر 20 سے25 گھروں پر مشتمل دوسری چھوٹی آبادی ہے جس کا نام “میر والا “ہے وہاں کے باشندوں نے ایک بڑی مسجد تعمیر کی ہے، “میر والا ” کی نئی مسجد میں جمعہ جائز ہے یا نہیں ؟

نوٹ: 10 ایکڑ کے فاصلے میں چار ایکڑ کے بعد  ایک ایکڑ پر محیط بڑی رہائشی کوٹھی ہےاس کے پیچھے چھ،سات گھر بھی ہیں کوٹھی سے 5 ایکڑ کے فاصلے پر “میر والا “کی مسجد ہے ۔ ایک کوٹھی جس کا تذکرہ کیا ہے مین روڈ پر ہے “آرائیں واہن ” سے کوٹھی تک اور کوٹھی سے دوسری نئی مسجد تک درمیان میں کاشتکاری کے لیے کھیت  ہیں۔

وضاحت مطلوب ہے :(1)سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے ؟(2)”میر والا “کی آبادی میں کتنے بالغ افراد ہیں؟ (3)یہ لوگ پہلے جمعہ کہاں پڑھتے تھے؟(4) میروالا میں کتنی مساجد ہیں اور کیا کوئی جامع مسجد بھی ہے جس میں تمام افراد سما سکتے ہوں؟ (5)جمعہ شروع کروانے کی کیا مجبوری ہے؟(6) آپ کے گاؤں میں کیا کیا سہولیات ہیں جیسے پرچون کی دکان، جوتے، کپڑے وغیرہ کی دکانیں، ڈاکٹر، سکول، ڈاکخانہ ، تھانہ وغیرہ ہیں یا نہیں؟

جواب وضاحت :(1)سائل علاقہ کے شیخ الحدیث اور جید عالم ہیں وہ پوچھ رہے ہیں۔(2) 100مرد وعورتیں  ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ 50 مرد ہیں یہ سب پہلے ” آرائیں واہن  ” میں رہتے تھے (3) “آرائیں واہن  ” میں جمعہ پڑھتے تھے پھر اپنی زمین پر جا کر آباد ہو گئے اور فرض نمازیں  وہیں (میر والا) میں پڑھتے تھے  اور جمعہ “آرائیں واہن”   میں پڑھنے آتے تھے۔ (4)پہلے چھوٹی مسجد تھی اب یہ روڈ پر بڑی مسجد بنائی ہے جامع  مسجد نہیں ہے ۔(5) مجبوری تو کوئی نہیں ہے البتہ مسجد چونکہ بڑی بنائی ہے تو یہ چاہتے ہیں کہ جمعہ ہونا چاہیے ۔(6) صرف ایک ٹافی بسکٹ کی دکان ہے۔اس کے علاؤہ کچھ نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں فقہ حنفی کی رو سے “میروالا “میں جمعہ جائز نہیں۔

تو جیہ: فقہ حنفی کی رو سے جمعہ کی صحت کے لیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس جگہ جمعہ ادا کیا جائے وہ مصر (شہر) یا قریہ کبیرہ (بڑی بستی) ہو یا ان کی فنا ہو (فنا اس  جگہ کو کہتے ہیں جو شہر کی اجتماعی ضرورتوں کے لیے مختص ہو مثلا عید گاہ ، قبرستان، سرکاری سکول ، ہسپتال وغیرہ )جبکہ ” میروالا”نہ شہر ہےاور نہ قصبہ (بڑی بستی )ہے اور نہ ان (شہر یا بڑی بستی) کی فنا ہے اس لیے فقہ حنفی کی رو سے”میر والا”میں  جمعہ جائز نہیں۔

الدر المختار  (3/6) میں ہے:

 (ويشترط لصحتها) سبعة أشياء: الاول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء.مجتبى لظهور التواني في الاحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدر على إقامة الحدود……. (أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أولا، كما حرره ابن الكمال وغيره (لاجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل

شامی (3/6) میں ہے:

 (قوله وظاهر المذهب إلخ).. .. .. عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح

شامی (3/8) میں ہے:

وعبارة القهستانى وتقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها اسواق.

امداد الاحکام (1/756) میں ہے:

سوال: حنفیہ کے نزدیک ایسے گاؤں میں جمعہ جائز ہے یا نہیں جس کی تعریف حسب ذیل ہے:

آبادی 1948 ہے جس میں مسلمان مختلف قومیں آباد ہیں، شیخ، پٹھان، زمیندار، راجپوت ،نومسلم، لوہار، بڑہئی، نائی،دھوبی، قصائی، تیلی منہیار، درزی، تیر گر، ڈوم،خرادی،نداف،جولاہا،سقہ،عطار،پنساری ، بزاز وغیرہ وغیرہ،وسط گاؤں میں مسلسل دو طرفہ تقریبا 40 دکانیں ایک ڈاکخانہ ایک ہی مسجد ہے مع حوض نہایت عالیشان ہے پہلے سے جمعہ ہوتا آیا ہے، اب اختلاف ہوا ہے،

جواب: اصل یہ ہے کہ گاؤں میں جمعہ صحیح نہیں اور شہر و قصبات میں صحیح ہے۔ قصبہ کی تعریف ہمارے عرف میں یہ ہے کہ جہاں آبادی 4000 کے قریب یا اس سے زیادہ ہو اور ایسا بازار موجود ہو، جس میں دکانیں چالیس پچاس متصل ہو ں اور بازار روزانہ لگتا ہو، اور اس بازار میں ضروریات روزمرہ کی ملتی ہوں مثلاجوتہ کی دکان بھی ہو، کپڑے کی بھی، عطار کی بھی ہو، بزاز کی بھی، غلہ کی بھی دودھ گھی کی بھی اور وہاں ڈاکٹر یا حکیم بھی ہو معمارو مستری بھی ہو وغیرہ وغیرہ اور وہاں ڈاکخانہ بھی ہو اور پولیس کا تھانہ چوکی بھی ہو اور اس میں مختلف محلے مختلف ناموں سے موسوم ہوں،پس جس بستی میں یہ شرائط موجود ہوں گی وہاں جمعہ صحیح ہوگا ورنہ صحیح نہ ہوگا۔

 قال فی رد المحتار: عن ابي حنيفة انه بلدة كبيرة فيها سكك واسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على انصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه او علم غيره يرجع الناس اليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الاصح….. قلت اقمنا البوليس وقيامه مقام الوالى  لرجوع الناس اليه في الحوادث والرساتيق المحلات والقرى التابعة لها و قال في الغنية المتملي والفصل في ذلك ان مكة والمدينة مصر  ان تقام بها الجمعة من زمنه عليه الصلاة والسلام الى اليوم فكل موضع كان مثل احدهما فهو مصر فكل تفسيرلايصدق على احدهما فهو غير معتبر ثم صح الرواية التي ذكرناها عن الامام وقال قال قاضي خان والاعتماد على ما روي عن ابي حنيفة كل موضع بلغت ابنيته مني وفيه مفتى وقاض فهو مصر جامع وعن محمد ان كل موضع مصره الامام فهو مصر حتى أنه لو بعث إلى قرية نائبا لإقامة الحدود والقصاص تصير مصرا فإذا عزله تلحق بالقرى ووجه ذلك ماصح انه كان لعثمان عبدا اسود أميرا على الربذة ليصلى خلفه ابوذر وعشرة من الصحابة الجمعة وغيرها،ذکره ابن حزم فی المحلی اھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved