• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

چوزے کی خرید وفروخت

استفتاء

مفتی صاحب  مرغی کے چوزے کی ایک قسم ہے جس کا نام  سمانی چوزہ ہے جو بالکل سیاہ کلر میں ہے اس کی ہر چیز بلیک (سیاہ) ہوتی ہے جو انڈونیشیا کی بریڈ  (نسل) ہے اب پاکستان میں لوگ اس کا کاروبار کرتے ہیں کاروبار کرنے کا طریقہ کار کچھ یوں ہے آپ  ایک صحیح سلامت چوزہ ان  سے لیں گے 7 ہزار میں جو ایک ہفتے کا ہوگا اور ایک مہینے بعد اسی بندے کو خریدار  پال پوس  کر واپس کرے گا 14 ہزار کا اور پالنے کا خرچ سب خریدنے والے کے ذمے ہوگا خریدنے کے بعد جب خریدار  کی ملکیت میں آگیا تو اس کے بعد اگر مر جائے تو وہ خریدنے والے کے کھاتے میں ہوگا کیا یہ کاروبار جائز ہے؟

وضاحت مطلوب ہے : ایک ماہ بعد واپس کرنے کے بعد کی قیمت پہلے سے طے ہوتی ہے یا واپسی کے وقت طے کرتے ہیں اگر پالنے والا واپس نہ کرنا چاہے تو کیا اس کو اختیار ہوگا نیز کیا کسی بھی وجہ سے مرنے کی صورت میں خریدار پر تاوان آئے گا یا پھر خریدار کی کوتاہی کی وجہ سے مرنے کی صورت میں خریدار پر تاوان آئے گا؟

جواب وضاحت:جی حضرت یہ بات پہلے سے طے شدہ ہوتی ہےکہ ایک مہینے بعد ڈبل قیمت ادا ہوگی اور اگر خریدار کے خریدنے کے بعد کسی بھی صورت میں چوزہ  مرجائے تو وہ خریدار  ہی کے کھاتے میں ہوگا اور اگر خریدار واپس نہ کرے تو بیچنے والے  کا  اس  پر کوئی زور نہیں چلے گا ۔

وضاحت مطلوب ہے:کیا دوکاندار واپس خریدنے کا پابند ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو اس کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟

جواب وضاحت:بیچنے والا واپسی کا پابند ہوگا بشرطیکہ چوزہ صحیح سلامت ہو ورنہ نہیں لیکن خریدنے والے کو اختیار ہے واپس کرے یا نہ کرے جب واپس کرے گا پھر بھی مشتری کو اختیار حاصل ہوگا چاہے وہ اور چوزے لے یا  کیش پیمنٹ لے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  طریقے سے کاروبار جائز نہیں ہے کیونکہ  جب چوزہ  پالنے والا چوزہ خریدتا ہے تو وہ  خریداری اس شرط  فاسد کے ساتھ ہوتی ہے کہ ابتدا میں  بیچنے والا بعد میں اس چوزے کو خریدنے کا پابند ہوگا وہ انکار نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے یہ پہلا سودا ہی فاسد ہوتا  ہے،البتہ اگر پہلے سودے کے  موقع پر یہ شرط نہ ہو اور بعد میں  پہلے معاملے کا بائع ( بیچنے والا) واپس خریدنے کا پابند نہ ہو اور واپس خریدنے کی صورت میں کسی خاص ریٹ کا پابند بھی نہ ہو تو یہ صورت جائز ہوگی۔

المبسوط للسرخسی(13/14)میں ہے:

وإن كان شرطا لا يقتضيه العقد وليس فيه عرف ظاهر قال: فإن كان فيه منفعة لأحد المتعاقدين فالبيع فاسد؛ لأن الشرط باطل في نفسه

ہندیہ (3/ 134) میں ہے:

ولو ‌اشترى ‌شيئا ‌ليبيعه ‌من ‌البائع ‌فالبيع ‌فاسد

شامی (5/84) میں ہے:

(و) لا (بيع بشرط)…(لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا، …(ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved