- فتوی نمبر: 15-290
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > غصب و ضمان
استفتاء
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
20 اپریل کو مدرسہ والوں نے مجھے ایک استاذ صاحب کی تنخواہ دی کہ ان کو پہنچا دوں، 20 اپریل کو عصر کے بعد ان استاذ صاحب کے بیٹے سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت صاحب آج کہیں پروگرام میں گئے ہوئے ہیں وہ نہ آج دکان پر آئیں گے اور نہ آج ان سے رابطہ ہو سکتا ہے۔ 21 اپریل کو یہاں مدرسے میں پروگرام تھا، پروگرام کے بعد شام کو چھٹی لے کر میں اپنے علاقے چلا گیا۔
20 اپریل کی رات کو سوتے وقت میں نے وہ پیسے اپنے تکیے کے نیچے رکھے، پھر وہیں رکھ کر بھول گیا۔ اپنے علاقے جانے کے بعد 24 اپریل کو مجھے یاد آیا تو میں نے ایک ساتھی کو فون کیا کہ آپ کہاں ہو؟ تو اس نے بتایا کہ میں مدرسہ کے گھر میں ہوں۔ میں نے ان کو کہا کہ میرا تکیہ اٹھائیں، انہوں نے تکیہ اٹھایا، میں نے کہا اس کے نیچے کچھ ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں ایک لفافہ ہے، تو میں نے ان کو کہا کہ یہ پیسے فلاں مولانا صاحب کے ہیں ان کو اٹھا کر الماری میں رکھ دو۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ الماری میں پیسے رکھ دیے؟ تو انہوں نے کہا کہ رکھ دئیے۔
پھر تقریباً26 اپریل کو میں نے ایک ساتھی سے رابطہ کیا کہ میرا الماری میں بلڈ گروپ کا کارڈ رکھا ہوا ہے اس پر گروپ نمبر دیکھ کر مجھے بتاؤ ۔ اس نے دیکھنا شروع کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ الماری میں فلاں مولانا صاحب کے پیسے رکھے ہوئے ہیں، ان کا کیا کرنا ہے؟ میں نے ان کو کہا کہ ان پیسوں کو یہیں پڑے رہنے دیں، میں رابطہ کرتا ہوں۔ پھر میں نے مولانا کے بیٹے سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت قصور گئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ جب مولانا آجائیں تو میرا ان سے رابطہ کرا دینا، لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوا، پھر میں نے ایک دو دن بعد ان کو میسج کیا اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔
پھر 30 اپریل کو مجھے فون آیا کہ وہ پیسے چوری ہو گئے ہیں۔ دو ساتھیوں میں سے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ الماری کو تالا لگا ہوا تھا، اور دوسرے ساتھی کہتے ہیں کہ تالا نہیں لگا تھا۔
اس بناء پر مدرسہ والوں نے میری تنخواہ کاٹ لی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت میں میرے ذمے یہ پیسے بنتے ہیں یا نہیں؟ اور مدرسہ والوں کا میری تنخواہ کاٹنا درست ہے یا نہیں؟
وضاحت مطلوب ہےکہ (1) آپ نے لکھا ہے:
’’پھر تقریباً26 اپریل کو میں نے ایک ساتھی سے رابطہ کیا کہ میرا الماری میں بلڈ گروپ کا کارڈ ۔۔۔۔۔۔ پیسے رکھے ہوئے ہیں، ان کا کیا کرنا ہے؟‘‘
ان ساتھی کو کیسے پتہ چلا کہ پیسے رکھے ہوئے ہیں؟
2۔ آپ نے لکھا ہے:
’’ دو ساتھیوں میں سے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ الماری کو تالا لگا ہوا تھا ۔۔۔۔ الخ‘‘
کون دو ساتھی مراد ہیں؟ اور ان کا اس الماری سے کیا تعلق ہے؟
جواب وضاحت:
1۔ الماری میں لفافہ تھا اور اس پر مولانا صاحب کا نام اور پیسے بھی لکھے تھے کہ اس میں اتنے پیسے ہیں۔
2۔ وہ دو ساتھی میرے کمرے میں رہتے ہیں اور ان دونوں کے پاس اس الماری کی چابیاں ہیں یعنی وہ الماری ہمارے درمیان مشترکہ ہے۔
نوٹ: مجھے ایک شخص جو کہ ہمارے کمرے میں رہتا ہے اس پر شک ہے کہ پیسے اس نے چرائے ہیں۔ جس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
1۔ جس ساتھی نے کہا تھا کہ الماری کا تالا کھلا ہوا ہے اس کا سامان بھی اسی الماری میں ہوتا ہے اس نے تالا کیوں نہیں لگایا۔
2۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس دن چوری ہوئی اسی دن اس نے کہا کہ میری نانی فوت ہو گئی ہے میں جنازے کے لیے بہاولپور جا رہا ہوں۔ جاتے ہوئے سٹور کی چابی غلطی سے ساتھ لے گئے۔ ہم نے رابطہ کیا اور چابی ٹی سی ایس کرنے کو کہا، انہوں نے چابی ٹی سی ایس کروا دی، لیکن وہ ٹی سی ایس بہاولپور کی بجائے سیالکوٹ سے آئی۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ بہاولپور کی بجائے سیالکوٹ گئے تھے کیونکہ وہاں ان کی اہلیہ تھی۔
3۔ تالے کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تالا ٹوٹا نہیں بلکہ چابی سے کھول کر پیسے نکالے گئے ہیں کیونکہ جب محل وقوع کو دیکھا گیا تو اس وقت تالا زمین پر پڑا تھا لیکن ٹوٹا ہوا نہیں تھا بلکہ بند تھا ایسا لگتا ہے کہ کسی نے کھول کر دوبارہ بند کر کے نیچے پھینک دیا ہے۔
4۔ اگر باہر سے کوئی چور آتا تو کوئی اور چیز بھی چراتا کیونکہ لیپ ٹاپ بھی سامنے ہی رکھا ہوا تھا جبکہ پیسے تو الماری کے اندر کپڑوں کے نیچے تھے، اس کو الماری کے پیسے تو نظر آئے اور کوئی چیز نظر نہیں آئی؟
ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ فرمائیں کہ پیسوں کی ذمہ داری کس پر ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ایسی مشترکہ الماری میں پیسے رکھنا کہ جس کی چابی ہر شریک کے پاس تھی غفلت اور کوتاہی کی بات تھی لہذا پیسوں کی ذمہ داری آپ آتی ہے، لہذا مدرسے والوں کا مذکورہ پیسوں کے بقدر آپ کی تنخواہ کاٹنا درست ہے۔
جس ساتھی پر آپ کو شک ہے جب تک وہ خود چوری کا اقرار نہ کرے یا جب تک اس کے چوری کرنے پر معتبر گواہ نہ ہوں اس وقت تک پیسوں کی ذمہ داری اس پر ڈالنا درست نہیں۔ شک کی جو وجوہات سوال میں مذکور ہیں وہ چوری ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں البتہ ذکر کردہ وجوہات کی وجہ سے اس پر جائز حدود میں رہتے ہوئے زور ڈالا جا سکتا ہے تاکہ وہ خود اقرار کرے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved