- فتوی نمبر: 16-321
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
1۔ایک چیز مارکیٹ میں 500 روپے کی ملتی ہے کوئی گھر آکر 100 روپے میں دیتا ہے تو کیا یہ خریدنا جائز ہے؟
2۔ ایک چیز مارکیٹ میں 500سو روپے کے ملتی ہے کوئی گھر آکر 100 روپے میں دیتا ہے شک ہے کہ چوری کی چیز ہو تو کیا اس کا خریدنا جائز ہوگا؟
3۔ کمیٹی کی رقم سے آدمی صاحب نصاب شمار ہوگا ؟یعنی اس پر قربانی یا زکوۃ واجب ہوگی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔2 اگر غالب گمان یہ ہو کہ یہ چیز چوری کی ہے تو ایسی چیز کا خریدنا جائز نہیں۔
3۔کمیٹی کے رقم سے آدمی صاحب نصاب شمار ہوگا اور اس پر اس کی زکوۃ بھی واجب ہو گی، البتہ قربانی میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس کمیٹی کی رقم کے علاوہ قربانی کرنے کے لئے پیسے ہوں یا ضرورت سے زائد ایسا سامان ہو کہ جسے فروخت کر کے قربانی کی جاسکتی ہے تو قربانی واجب ہوگی ورنہ واجب نہ ہو گی۔
فتاوی عالمگیریہ مع فتاوی بزازیہ37/9میں ہے:
وعن الامام رحمه الله تعالى انه لا فرق بين نصاب الزكاة والاضحية فلا تجب الا بما يجب به الزكاة لها دار تبلغ نصابا تسكنها مع الزوج اذا قدر زوجها على الاسكان تلزم والا لا، له ديون مؤجلة وليس عنده ما يشتريها به لا تلزم ، له على مقر مفلس دين لا تلزم مالم يصل اليه ،له دين حال علي مقرمليء و ليس عنده ما يشتريها به لاتلزمه الاستقراض ولا قيمة الاضحية اذا وصل الدين اليه ولكن يلزمه أن يسال منه ثمن الاضحية اذا غلب على ظنه انه يعطيه،له مال كثير غائب في يدمضاربه اوشريكه ومعه من الحجرين اومتاع البيت ما يشتري به الاضحية تلزم
© Copyright 2024, All Rights Reserved