- فتوی نمبر: 23-247
- تاریخ: 29 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
میرا ایک جنرل اسٹور ہے میں سگریٹ بھی فروخت کرتا ہوں ہر سال بجٹ کے موقع پر سگریٹ کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے میں بجٹ سے 3 یا 4 ماہ پہلے ڈیلرسے سگریٹ خرید لیتا ہوں لیکن صرف رقم کی ادائیگی کرکے اس سے رسید حاصل کرلیتا ہوں مال متعین بھی نہیں ہوتا اور نہ میں اس پر قبضہ کرتا ہوں البتہ اس کی ملکیت میں اس سے کہیں زیادہ مال موجود ہوتا ہے پھر جب بجٹ کے موقع پر قیمت زیادہ ہوتی ہے تو میں اسی دکاندار کو بیچ کر نفع کماتا ہوں میرے علم میں آیا ہے کہ جب تک مال خرید کر قبضہ نہ کرلیا جائے تو اس کو بیچنا جائز نہیں ۔
1) کیا یہ بات درست ہے اور کیا میرے لیے اس دکاندار کو قبضہ سے پہلے سگریٹ واپس بیچنا ناجائز ہے؟
2) اگر یہ صورت ناجائز ہے تو آج تک جو نفع میں نے کمایا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1) مذکورہ بات یعنی ’’جب تک مال خرید کر قبضہ نہ کر لیا جائے تو اس کو بیچنا جائز نہیں ‘‘ درست ہے یہ بات صرف منقولات سے متعلق ہے۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں آپ کے لیے اس دکاندار کو قبضہ سے پہلے واپس سگریٹ بیچنا ناجائز ہے۔
توجیہ: ایک شخص دوسرے سے کسی خاص نوع کی کوئی چیز خاص مقدار میں خریدے اور اس بیچنے والے کی ملکیت میں اسی نوع کی وہ چیز اس خاص مقدار میں یا اس سے زائد مقدار میں موجود بھی ہو تو اگرچہ عقد کے وقت مبیع کو متعین نہ کیا جائے تب بھی وہ خریدوفروخت جائز ہے لیکن جس صورت میں بیچنے والے کی ملکیت میں اس خاص مقدار سے زیادہ مقدار میں وہ چیز موجود ہو تو اس صورت میں یہ خاص مقدار بحکم دین ہے(مجلۃ مادہ158) لیکن جس صورت میں دین مبیع ہو جیسے مسلم فیہ تو اس کی بیع کو فقہاء نے مبیع کی بیع قبل القبض میں ہی شمار کیا ہے نیز اس صورت میں مبیع من کل الوجوہ دین یعنی ما یثبت فی الذمۃ نہیں ہوتی جیسا کہ بیع سلم میں مسلم فیہ دین ہوتی ہے بلکہ اس کا دین ہونا من وجہ ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں مبیع کا تعلق اس مقدار سے ہوتا ہے جو بیچنے والے کی ملکیت میں ہے، نہ کہ ذمہ سے اسی وجہ سےاگروہ کل مقدار ہلاک ہوجائے تو بیع فاسد ہوجاتی ہے،اس سے معلوم ہوا کہ مبیع میں ایک درجہ کی تعیین ہے اور مبیع جب متعین ہو اورمنقولی ہو تو اسے قبضہ سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہے اگرچہ واپس بائع کو ہی بیچا جائے۔ نیز یہ صورت سٹہ کے مشابہ بھی ہے کہ اصل مقصود خریداری نہیں بلکہ بعد میں صرف ریٹ کی کمی بیشی سے نفع کمانا ہے لہذا مذکورہ صورت میں سائل کا سگریٹ بیچنے والے کو واپس بیچنا جائز نہیں ہے۔
2) جو نفع اب تک کمایا ہے اسے آہستہ آہستہ صدقہ کردیں۔
نوٹ: یہ ساری تفصیل اسی صورت میں ہے جب ڈیلر دکانداروں کو اتنا مال ہی فروخت کرے جتنا اس کی ملکیت میں بھی ہو ورنہ اکثر ڈیلر اس طرح کے سودوں میں اپنی ملکیت سے کہیں زیادہ مال فروخت کرکے بعد میں وہ اسے خریدتے ہیں اس صورت میں اس ڈیلر کا اپنی ملکیت سے زیادہ مال بیچنا اور دکاندار کا خریدنا جائز ہی نہیں ہوگا۔
بدائع الصنائع (5/ 158) میں ہے:ولو قال بعتك قفيزا من هذه الصبرة صح وإن كان قفيزا من صبرة مجهولا لكن هذه جهالة لا تفضي إلى المنازعة لأن الصبرة الواحدة متماثلة القفزان بخلاف الشاة من القطيع وثوب من الأربعة لأن بين شاة وشاة تفاوتا فاحشا وكذا بين ثوب وثوب والله سبحانه وتعالى أعلمحاشية ابن عابدين (4/ 530) میں ہے:ومنها لو قال بعتك كرا من الحنطة فإن لم يكن كل الكر في ملكه بطل ولو بعضه في ملكه بطل في المعدوم وفسد في الموجود ولو كله في ملكه لكن في موضعين أو من نوعين مختلفين لا يجوز ولو من نوع واحد في موضع واحد جاز وإن لم يضف البيع إلى تلك الحنطةدرر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 111) میں ہے:المادة 158 ) الدين ما يثبت في الذمة كمقدار من الدراهم في ذمة رجل ومقدار منها ليس بحاضر والمقدار المعين من الدراهم أو من صبرة الحنطة الحاضرتين قبل الإفراز فكلها من قبيل الدين .الشرح: والدين يترتب في الذمة بعقد كالشراء والإجارة والحوالة أو استهلاك مال أو استقراض والدين هو مال حكمي سواء كان نقدا أو مالا مثليا غير النقد كالمكيلات والموزونات ( رد المحتار ) . وليس بمال حقيقي ; لأن الدين لا يدخر وأن اعتبار الدين مالا حكميا إنما هو ; لأنه باقترانه بالقبض في الزمن الآتي سيكون قابلا للادخار . أما الذمة فقد سبق تعريفها في المادة الثامنة . هذا وإن أحكام الدين تختلف عن أحكام العين . فالدين قابل للإسقاط بخلاف العين والعين تكون في بيع السلم ثمنا بعكس الدين فإنه لا يكون كذلك . والحاصل أن الدين يقسم إلى ثلاثة أقسام : 1 – هو الذي يتعلق بذمة المدين بوجه من الوجوه . 2 – هو الذي وإن لم يتعلق بالذمة فهو غير موجود ولا مشار إليه . 3 – هو الذي وإن كان موجودا ومشارا إليه فهو من المثليات غير المفرزة ككيلة واحدة من الحنطة غير مفرزة في صبرة حنطة . يفهم من هذه التفصيلات كلها أن الدين غير مختص بالشيء الثابت بالذمة وعليه يكون المثال الوارد في المجلة أعم من الممثلمجلۃ الاحكام العدلیہ(مادة 253) میں ہے: للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقارا وإلا فلادرر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 201) میں ہے: وقول المجلة ( لآخر ) معناه لغير البائع لأنه لا يجوز للمشتري أن يبيع العقار من بائعه قبل القبض وإذا فعل فالبيع فاسد كما في بيع المنقول۔۔۔۔ وكذلك لا يجوز للمشتري أن يبيعه من البائع حتى لو أن المشتري باع المبيع المنقول من بائعه قبل قبضه فالبيع الثاني يكون فاسداشرح المجلۃ الاتاسی(174/2) میں ہے:والتقييد بكون المبيع لآخر احترازا عن بيعه لبائعه قبل قبضه فانه فاسد كما في المنقول ويراجع طحطاوي قلت ويؤيده ما في الخانية :باع المبيع من البائع قبل القبض لايجوز البيع الثاني ولا ينفسخ الاول ۔۔۔۔ فقوله باع المبيع يعم العقار والمنقولبدائع الصنائع (5/ 148)میں ہےولا يجوز بيع المسلم فيه لأن المسلم فيه مبيع ولا يجوز بيع المبيع قبل القبضشرح مختصر الطحاوي للجصاص (3/ 133)میں ہےولا يجوز بيع المسلم فيه قبل قبضه ممن هو عليه، ولا من غيره، ولا التولية، ولا الشركة).لأنه بيع ما لم يقبض، ولأنه بيع دين في ذمة الغير، وبيعه غير قادر على تسليمه.البحر الرائق (6/ 106) میں ہے:قوله ( وطاب للبائع ما ربح لا للمشتري ) أي طاب للبائع ما ربحه في ثمن الفاسد ولا يطيب للمشتري ربح المبيع فلا يتصدق الأول ويتصدق المشتري
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved