• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

کلیم (Claim)

استفتاء

چیز میں خرابی کی وجہ سے مال واپس کرنا

**الیکٹرک میں الیکٹریشن، الیکٹرک اور ہارڈ ویئر سے متعلق سامان مثلاً پنکھے، بجلی کے بٹن، انرجی سیور LED بلب، تار کوائل شپ (ایک خاص قسم کی مہنگی تار) رائونڈشپ تار (خاص قسم کی تار جو بنڈل کی شکل میں ہوتی ہے اور کسٹمر کی ضرورت کے مطابق اس کو بنڈل سے کاٹ کر دی جاتی ہے) وغیرہ کی فروخت کی جاتی ہے۔

(1)          سیل میں بعض اوقات کسٹمر کی طرف سے مال کی خرابی کی شکایت کی جاتی ہے اگر کسٹمر کی طرف سے شکایت کی صورت میں مال واقعۃً خراب ہو تو پوری قیمت کسٹمر کو واپس کی جاتی ہے۔

(2)          ** میں گاہک عام طور پر کئی مہینوں کے بعد کسی چیز کو واپس کرتے ہیں جس سے ** کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اس مشکل سے بچنے کے لیے بل پر مال کی ناقابل واپسی کی عبارت درج ہے کہ یہ مال واپس نہیں ہو گا تاہم فروخت شدہ مال میں اگر کوئی ایسی خرابی نہ ہوئی ہوجومارکیٹ ٹرینڈ میں خرابی شمار ہوتی ہو اور مال کی حالت بھی وہی ہوتو ** اسے واپس کر لیتی ہے۔

(3)          ** میں خراب مال کی واپسی پر قیمت میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جاتی۔

(4)          مال کی واپسی کافی عرصہ کے بعد ہو، اور مال کی حالت بھی تبدیل ہوئی ہو تو ** کے لیے ایسا مال واپس کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

(5)          مذکورہ مدت کے بعد بھی حالت وہی ہو تو اس کی قیمت کو دیکھا جاتا ہے کہ واپسی کے وقت کیا قیمت ہے؟ موجودہ قیمت،قیمت فروخت سے کم ہوئی ہے یا زیادہ، اگر قیمت کم ہوئی ہو تو اسی کم قیمت پر ان سے چیز واپس لی جاتی ہے  اور اس بارے میں علماء کرام سے پوچھا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ اس صورت میں ایسی چیز کم قیمت پر لینے کی گنجائش ہے اور اس وقت یہ نیا سودا بیع جدید کے حکم میں ہے اور ایسا کرنا آپ کے لئے جائز ہے، اور اگر موجودہ قیمت،قیمت فروخت سے زیادہ ہوئی ہو تو وہ چیز اپنی پرانی قیمت پر واپس لی جاتی ہے۔

مذکورہ بالا طریقہ اختیار کرنا شرعاً کیسا ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ اگر مال واقعۃ خراب ہو اور مشتری اس مال کو واپس کرنا چاہے تو اس صورت میں **الیکٹرک پر اس مال کو واپس لینا شرعاً ضروری ہے۔

۲۔ عیب اگر ایسا ہو جو **الیکٹرک کے ہاں پیدا ہوا ہو اور مشتری کو بعد میں پتہ چلے تو اس صورت میں بھی **الیکٹرک پر اس مال کو واپس کرنا ضروری ہو گا۔ تاہم اگر **الیکٹرک نے مال صحیح سالم مشتری کے حوالے کیا تھا اور اس میں کوئی عیب نہیں تھا تو اس صورت میں اگر بعد میں کوئی عیب نکل آئے یا بغیر عیب کے مشتری واپس کرنا چاہے تو **الیکٹرک کو واپس نہ کرنے کا اختیار ہے۔

۳۔            مال کی واپسی پر قیمت میں کمی کئے بغیر واپس کرنا شرعاً درست ہے۔

۵۔۴          مذکورہ دونوں صورتوں میں اگر مال کی حالت زیادہ خراب ہو گئی ہو اور عرصہ بھی زیادہ گزر گیا ہو تو کسٹمر کو مال واپس کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ تاہم اگر **الیکٹرک کسٹمر سے باہمی رضا مندی سے نیا سودا کر کے کم قیمت پر واپس لینا چاہے تو درست ہے۔

نوٹ: کم قیمت پر واپس خریدنا تب درست ہے جب پہلے سودے کی قیمت کی ادائیگی ہو چکی ہو تاکہ بیع عینہ کی صورت نہ بنے۔

(۱) الاختيار لتعليل المختار: (۲/۱۸) :

واذا اطلع المشتري علي عيب، فان شاء أخذ المبيع بجميع الثمن وان شاء رده لأنه لم يرض بهٖ وليس له أخذه وأخذ النقصان إلابرضي البائع لأن الاوصاف لا يقابلها شئ من الثمن بالعقد۔

(۲)         فقه البيوع: (۲/۱۱۸۰):

مقتضي خيار العيب أن المشتري له أن يرد المبيع الي البائع، و يطالبه برد الثمن، إلا أن يصطلح المتبا يعان علي أن يمسک المشتري المبيع، ويحط البائع من الثمن بقدر ما نقص العيب من قيمة المبيع، أو بما يترا ضيان عليه بشرط أن يکون تابعا شروط الصلح الشرعية۔

(۳)         الفقه الاسلامي وادلته: (۵/۲۴۰):

المطلب الخامس، موانع الرد بالعيب وسقوط الخيار يمتنع الردبالعيب……

۱۔ الرضا بالعيب بعد العلم به اما صراحة کأن يقول: رضيت بالعيب اواجزت العيب او دلالة کالتصرف في المبيع تصرفا يدل علي الرضا بالعيب ……… او استعماله باي وجه کلبس الثوب ورکوب الدابة او مداواة المبيع و نحوها۔

(۴)         الفتاويٰ الهندية: (۳/۷۵):

الاصل ان المشتري متي تصرف في المشتري بعد العلم بالعيب تصرف الملاک بطل حقه في الرد۔

(۵)         رد المحتار (۵/۴۲)، مطلب في البيع بشرط البراء ة من کل عيب،:

’’قال العلائي رحمه الله تعاليٰ: ’’وصح البيع بشرط البراء ة من کل عيب وإن لم يسم……… لعدم إفضائهٖ إلي المنازعة‘‘۔ (ويدخل فيه الموجود والحادث) بعد العقد (قبل القبض فلايرد بعيب)

(۶)         فقه البيوع (۲/۹۰۶) الباب الثاني في الخيارات في البيع الصحيح،:

ويجوز اشتراط الخيار من البائع و من المشتري و من کليهما، بل يجوز اشتراطه لشخص ثالث ايضا، و هذا مما اتفق عليه الفقهاء۔

(۷)ايضا (۲/۱۱۲۹):

الاقالة في اللغة بمعني الرفع و الازالة، و في الفقه: رفع العقد والغاء حکمه بتراض الطرفين بأن يردالبائع المبيع، و يرد المشتري الثمن، و الاصل في جواز ذلک ماروي عن ابي هريرة رضي الله تعاليٰ عنه ان رسول الله ﷺ۔ قال: ((من اقال مسلما، اقاله اللّٰه عثرته)۔

(۸)         الفتاوي الهندية: (۳/۱۳۲) البيوع،:

ولو قبض الثمن ثم اشتراه باقل جاز۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved