- فتوی نمبر: 8-32
- تاریخ: 10 اکتوبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
اگر پی کمپنی کے کلائنٹ کے پاس زیادہ مال چلا جائے تو وہ زائد مال واپس کر دیتا ہے یا اگر ضرورت ہو تو اسے رکھ لیتا ہے اور اس کے پیسے کمپنی کو دے دیتا ہے لیکن زائد مال چلا جائے ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اور اگر کلائنٹ کے پاس کم مال چلا جائے مثلاًاس نے 10 آئٹم منگوائے تھے لیکن اس کے پاس 6 آئٹم چلے گئے تواس صورت میں کلائنٹ صرف 6 آئٹم کی Receiving لکھ کردستخط Singn کر دیتا ہے۔ پھر کمپنی کا ملازم ویئر ہائوس والوں کو بتاتا ہے کہ مال اتنا کم نکلا تھا۔ کیا مذکورہ طریقہ کار شرعاً درست ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مال زائد چلے جانے کی صورت میں اور مال کم نکل آنے کی صورت میں جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ شرعاً درست ہے۔
1۔ الجوهرة النیرة۔ (٢/٢٠٦):
(قوله: ومن باع صبرة طعام علی أنها مائة قفیر بمائة درهم فوجدها أقل، فالمشتري بالخیار إن شاء أخذ الموجود بحصته، وإن شاء فسخ البیع لتفرق الصفقة علیه، ولم یتم رضاه بالموجود ….
والقدر لیس یوصف بل هو أصل بنفسه.
(٢) حاشیة ابن عابدین: (٤،٥٤٣)
قوله: (علی قدرمعین) فما زاد علیه لا یدخل في العقد، فیکون للبائع. ومفاده أن المعتبر ما وقع علیه العقد من العدد، وإن کان ظن البائع أو المشتري أنه أقل أو أکثر.
(٣) الموسوعة الفقهیة الکویتیة: (٩/٧٨)
من ابتاع صرة طعام علی أنها مائة فقیر بمائة درهم، فوجدها أقل أو أکثر… ذهب جمهور الفقهاء إلی صحة البیع في هذہ الصورة، سواء ظهر المبیع زائداً أم ناقصاً عما وقع علیه الاتفاق في العقد. ………………………………… فقط والله تعالٰی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved