استفتاء
*** ایک ڈاکٹر تھے اور اپنا کلینک چلاتے تھے، کلینک کرایہ پر تھا، لیکن دوائیاں اپنی تھیں، جب ان کا انتقال ہوا تو تین بیٹے چھوڑ کر فوت ہوئے، جن میں سے ایک بیٹا ڈاکٹر تھا وہ کلینک دوائیوں سمیت ڈاکٹر بیٹے کو منتقل ہو گیا اور باقی بیٹوں کو اس میں سے کچھ نہ ملا یعنی کہ ان کی دوائیاں، کتب وغیرہ وراثت میں تقسیم نہیں ہوئیں بلکہ بغیر تقسیم کے ہی ان کے ڈاکٹر بیٹے کے پاس رہیں۔ پھر یہ ڈاکٹر صاحب اسی طرح کرایہ پر کلینک چلاتے رہے لیکن دوائیاں اپنی تھیں، پھر ان کا انتقال ہوا تو ورثاء میں اس وقت بیوہ اور پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں، بیٹوں میں سے دو بیٹے ڈاکٹر ہیں، بالکل اسی طرح ان دونوں بیٹوں نے کلینک پہ بیٹھنا شروع کر دیا اور کلینک میں موجود دوائیاں وغیرہ پھر دوبارہ تقسیم نہ ہوئیں۔ حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ وہ جو دوائیاں کلینک میں موجود تھیں کیا وہ ان کی مالیت اولاد میں تقسیم ہونی تھیں؟ اگر ہونی تھیں تو کس طرح ہونی تھیں؟ اور اب ڈاکٹر صاحب کے انتقال کو بھی دس سال ہو چکے ہیں، اگر دوائیوں کی مالیت تقسیم ہونی تھی اور نہیں ہوئی تو اس کا کفارہ کیا ہے؟ اور اگر اب تقسیم کرنا چاہیے تو دوائیوں کی اس وقت کی مالیت کا حساب لگایا جائے گا کہ اب کی قیمت کا؟ اور عرصہ میں بیوہ کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ضابطہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اس کی تمام مملوکہ اشیاء میں ورثاء کا حق ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں اصل حکم تو یہ تھا کہ جب دونوں ڈاکٹر حضرات فوت ہوئے تو ان کی ملک میں جو جو سامان اور دوائیاں تھیں ان کو ورثاء میں تقسیم کر دیا جاتا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور وہ دوائیاں ایک بھائی کے قبضے میں رہیں۔
اب اس صورت میں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ پہلے مرحلے میں ایک وارث نے کتنا حصہ استعمال کیا، اپنا کیا یا دوسروں کا بھی کیا؟ اور یہی صورت حال دوسرے مرحلے میں بھی ہے، اس لیے اس معاملے کا حل یہی ہے کہ اندازہ کر لیا جائے کہ کتنی مالیت کی دوائیاں ہوں گی۔ پھر جو وارث زندہ ہیں ان کو جمع کر کے یا تو معافی تلافی ہو جائے، لیکن ہو سکتا ہے کہ کچھ وارث فوت ہو گئے ہوں اس لیے بہتر ہے کہ جو وارث زندہ ہیں ان سے مشورہ کر کے اندازہ لگائی ہوئی مالیت سب کے ثواب کی نیت سے فقراء میں تقسیم کر دی جائے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved