استفتاء
1-ہمارے ایک دوست کو ٹریفک حادثے میں سر پر چوٹ آئی ہسپتال والوں نے فوراً آپریشن کر دیا جس کے بعد وہ کوما میں چلے گئے اور دس سال اسی طرح مکمل کومے کی حالت میں بستر پر رہ کر انتقال کر گئے کیا ان دس سالوں کے روزہ اور نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ہوگا؟ اگر کرنا ہوگا تو کتنا اور کس طرح؟
2-اسی سے ملتا جلتا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دادا جان جنہوں نے تقریبا ساری زندگی پہلی صف میں تکبیر اولی کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی کبھی تہجد و اوابین بھی قضا نہیں کی تھی ہر سال باقاعدہ سے اعتکاف بھی کیا آخر عمر میں چند برس صاحب فراش رہے اس دوران انہیں پیمپر لگانا پڑتا تھا جو عموما دن میں دو بار ہی تبدیل کیا جاتا تھا وہ اسی حالت میں تیمم کرکے اپنے بستر پر ہی قبلہ رخ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے غالب امکان یہ ہے کہ بیشتر نمازوں میں پیمپر کی وجہ سے طہارت حاصل نہیں ہوتی تھی کیا ان کی ان برسوں کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ہوگا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)حادثے کی صورت میں روزے اور نمازوں کا فدیہ لازم نہیں۔
درمختار (2/692)میں ہے:
ومن جن او اغمي عليه ولو بفزع من سبع او آدمي يوم وليلة قضي الخمس وان زاد وقت صلاة سادسة لا للحرج .
بہشتی زیور (1/263)میں ہے:
اگر بے ہوشی پانچ نمازوں سے بڑھ جائے یعنی چھ نمازیں ہو جائیں تو اب ان نمازوں کو قضا نہ کرے کیونکہ یہ حرج کے سبب سے اس سے ساقط ہوگئیں لیکن ترک قضاء کا یہ حکم اس وقت ہے جب کہ بے ہوشی برابر رہے اور اس مدت کے دوران کبھی افاقہ نہ ہو.
مریض و معالج کے اسلامی احکام(108) میں ہے:
مرض ایک دن ایک رات یعنی پانچ نمازوں سے زیادہ رہا اور اس کی عقل قائم نہ رہی اس صورت میں حالت مرض کی نمازوں کی قضا نہیں ہے.
ہندیہ (1/459)میں ہے:
ولو فات صوم رمضان بعذر المرض او السفر واستدام المرض او السفر حتى مات لا قضاء عليه لكنه ان اوصى بان يطعم عنه صحت وصيته وان لم تجب عليه ويطعم عنه من ثلث ماله۔
شامی (3/466)میں ہے:
(فان ماتوا فیه )اي في ذلك العذر (فلا تجب )عليهم (الوصية بالفدية)لعدم ادراكهم عدة من ايام اخر
قوله(لعدم ادراكهم)اي فلم يلزمهم القضاء،ووجوب الوصية فرع القضاء.
شامی 2/643)میں ہے:
(وعليه صلوات فائتة)بان كان يقدر علي ادائها ولو بالايماء فيلزمه الايصاءبها والا فلا يلزمه وان قلت…وكذا حكم الصوم في رمضان ان افطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الاقامة والصحة.
بحر الرئق (2/495)میں ہے؛
قوله(ولاقضاء ان ماتا عليهما )اي ولا قضاء علي المريض والمسافر اذا ماتا قبل الصحة والاقامة لانهما لم يدركا عدة من ايام اخر فلم يوجد شرط وجوب الاداء فلم يلزمه القضاء ۔قيد به لانه لو صح المريض او اقام المسافر ولم يقض حتي مات لزمه الايصاء بقدره ۔وهو مصرح به في بعض نسخ المتن لوجود الادراك بهذا القدر وذكر الطحاوي ان هذا قول محمد ،وعندهما يلزمه القضاء الكل ،وغلطه القدوري وتبعه في الهدايه قال:والصحيح انه لايلزمه الا بقدره عند الكل۔
بہشتی زیور(1/416) میں ہے:
اگر بیماری سے اچھا نہیں ہوا اسی میں مر گیا یا ابھی گھر نہیں پہنچا مسافرت ہی میں مر گیا تو جتنے روزہ بیماری کی وجہ سے یا سفر کی وجہ سے چھوٹے ہیں آخرت میں ان کا مواخذہ نہ ہوگا کیونکہ قضاء رکھنے کی مہلت اس کو بھی نہیں ملی تھی.
2۔اس صورت میں بھی نمازوں کا فدیہ نہیں ۔
ہندیہ (1/293)میں ہے:
مريض تحته ثياب نجسة ان كان بحال لا يبسط شيء الا و يتنجس من ساعته يصلي على حاله وكذا اذا لم يتنجس لكن يلحقه زيادة مشقة بالتحويل كذا في فتاوى قاضيخان.
بہشتی زیور (1/263)میں ہے:
اگر بیمار کا بستر نجس ہے اور اس کے بدلے میں بہت تکلیف ہوگی تو اسی پر نماز پڑھ لینا درست ہے.
© Copyright 2024, All Rights Reserved