- فتوی نمبر: 17-303
- تاریخ: 18 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نذیراورصغیر تایازاد چچازاد بھائی ہیں ،نذیر نے صغیر کومشورہ دیا کہ اچھرہ مارکیٹ میں دودوکانیں مالک 8(آٹھ )لاکھ میں فروخت کررہا ہے وہ لے لو۔صغیر نے نذیر پراعتبار کیا اورنذیر کو اپنا وکیل مانتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے مالک سے سودا کرلو۔نذیر نے مالک سے ساڑھے چار لاکھ میں سودا کیا اورصغیر کوبتایا کہ مالک سے آٹھ لاکھ بیس ہزارمیں سودا کیا ہے اورصغیر سے آٹھ لاکھ بیس ہزار اورساتھ 35ہزار کمیشن وصول کیا۔
کچھ عرصہ بعد صغیر کودوکانوں کی ویلیوقیمت (5لاکھ)کاپتاچلااورتحقیق پرمعلوم ہوا کہ نذیر نے مالک سےساڑھے چار لاکھ کاسودا کیا ہے تو نذیر نے کہاہے کہ مالک سے ساڑھے چار لاکھ کی اپنے لیے لی تھی اورصغیر کوآٹھ لاکھ بیس ہزار کی فروخت کی ہیں یعنی صغیر سے تین لاکھ سترہزار پلس 35ہزار کمیشن اضافی لیے ہیں مگر صغیر کویہ نہیں بتایا کہ میں خود اسے فروخت کررہا ہوں۔
کیا نذیر نے جواضافی رقم صغیر سے وصول کی ہے ،صغیر اس رقم کو واپس لینے کا حق دار ہے اور اگر نذیر نے وہ اضافی رقم کسی اورکودے دی ہے تو کیا نذیران سے وہ رقم واپس لے کرصغیر کو واپس دینے کا ذمہ دار ہے یا نہیں؟شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں
نوٹ:دونوں فریق اس بیان سے متفق ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ معاملہ میں نذیر کی حیثیت کمیشن ایجنٹ کی ہے جس نے دوکان مالک سے صغیر کو دلوائی اوراس پر 35ہزار کمیشن بھی لیا اورکمیشن ایجنٹ امین ہوتا ہے جس کے ذمہ ہوتا ہے کہ اصلاسودا جتنے میں ہواسی کے حساب سے رقم (ثمن)اصل خریدار سے لے،لہذا مذکورہ صورت میں نذیر کےذمہ لازم ہے کہ ساڑھے چارلاکھ سے زائد رقم اپناکمیشن کاٹ کرصغیر کوواپس کرے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved