- فتوی نمبر: 7-104
- تاریخ: 23 دسمبر 2014
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
*** ایک کار ڈیلر ہے، اس کے دوست *** نے اس کو اپنے بھائی *** کے لیے Prius گاڑی لے کر دینے کا کہا۔ *** نے *** اور اس کے بھائی کو ایک شو روم پر گاڑی لینے کے لیے بھیجا مگر ان کو پسند نہ آئی، کچھ دن بعد ***، *** اور *** کو کچھ شو روموں پر لے گیا مگر کوئی گاڑی پسند نہ آئی۔ اسی دوران *** اور *** نے کہا کہ ہمارے ایک دوست نے Ak Motors کا بھی بتایا تھا کہ وہ اچھا آدمی ہے۔ *** نے کہا کہ میں اس کو جانتا ہوں اور اس کے گھر کا بھی پتہ ہے لیکن اس کا نمبر نہیں ہے۔ *** نے اپنے دوست سے Ak Motors والے کا نمبر لیا اور *** رابطہ کر کے ان کو Ak Motors والے کے گھر لے گیا۔
Ak Motors والے *** نے ان کو موبائل پر گاڑی کی تصویریں دکھائیں اور قیمت طے کی اور کل شو روم آنے کو کہا کہ گاڑی دیکھ کر حتمی کر لیں گے۔ یہ لوگ اگلے دن نہ جا سکے، اس کے اگلے دن *** نے *** کو کہا کہ میں خود ہی چلا جاؤں گا۔ جب *** شو روم گیا تو وہ گاڑی بِک گئی تھی۔ *** نے *** صاحب کے پاس اکیلے ایک ہفتہ آناجانا رکھا اور ہفتہ بعد اسی طرح کی دوسری گاڑی پسند کر کے خرید لی۔
اب *** کہتا ہے کہ جب *** نے *** کا ذکر کیا تو *** کے گھر جاتے ہوئے *** نے *** اور *** کو کہا تھا کہ میں کمیشن لوں گا تو *** نے کہا تھا کہ ہم آپ کو آپ کا حق ضرور دیں گے۔
جبکہ *** کہتا ہے کہ میں نے *** کو کہا تھا کہ آپ کی کوئی کمیشن نہ ہو گی بلکہ جو کمیشن *** کی طرف سے آپ کو ملے گا اس میں ہمارا حصہ ہو گا۔
*** کہتا ہے کہ *** کو نہ *** کا فون نمبر معلوم تھا نہ گھر کا ایڈریس معلوم تھا۔ *** کے گھر میں *** نے اکیلے میں *** سے کہ میں ایک فیصد کمیشن آپ سے لوں گا۔ اور جب تصویر میں دکھائی گاڑی کی قیمت متعین ہو چکی تھی تو وہاں سے واپسی پر *** نے *** سے کہا کہ آپ مجھے یہ گاڑی اس قیمت میں دلادیں تو *** نے کہا کہ میں اپنا کمیشن لوں گا تو *** نے کہا کہ ہم آپ کا حق آپ ضرور دیں گے۔ اس کے علاوہ *** نے کمیشن کے حوالے سے *** سے *** کے سامنے کوئی بات نہیں کی تھی۔
اب *** کا موقف یہ ہے کہ میں نے کمیشن کی حامی پہلے سودے پر بھری تھی نہ کہ دوسرے سودے پر، اس لیے میں *** کو اب کمیشن نہ دوں گا۔
اور *** دعویدار ہے کہ *** اور *** اس کو خریدی ہوئی گاڑی پر کمیشن دیں۔ اور *** دعویدار ہے کہ *** سے وصول کردہ کمیشن میں سے *** اس کو حصہ دے۔
محمد *** کمیشن ایجنٹ کا بیان
میں ایک کار ڈیلر ہوں، میں نے ایک دوست کو گاڑی لے کر دینا تھی، اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے گاڑی لے دیں، جس کا نام Prius تھا، میں نے اس کو مختلف شو روم سے گاڑیاں دکھائیں۔ پھر میں اس کو اور اس کے بھائی کو ایک ڈیلر کے گھر لے گیا۔ اور میں نے اس کے بھائی کے سامنے دو تین دفعہ کہا کہ میں کمیشن لوں گا، اس نے کہا کہ ہم آپ کا حق ضرور دیں گے، ہم آپ کا حق نہیں رکھیں گے۔
جس ڈیلر کے گھر میں ان کو لے کر گیا انہوں نے بھی کہا کہ ہمیں کسی نے کہا ہے کہ وہ اچھا آدمی ہے، میں نے کہا وہ میرا دوست ہے اس کے گھر چلتے ہیں، میرے اس وقت اس کا نمبر نہیں تھا، لیکن گھر کا پتہ تھا، میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اپنے دوست سے اس کا نمبر لے لیں۔ اس نے لے لیا، میں نے اس ڈیلر سے بات کی کہ ہم آپ کے گھر آ رہے ہیں، دوست کو گاڑی لے کر دینا ہے، اس نے کہا آ جائیں، میں نے اپنے دوست کی اور اس کے بھائی کی ڈیلر سے ملاقات کرا دی، آپس میں بات ہوئی، اس نے گاڑی کا بتایا، اس نے کہا کہ شو روم آ جائیں۔
جب شو روم گئے تو جس گاڑی کی بات ہوئی تھی وہ بِک گئی تھی ہمارے جانے سے پہلے۔ میں ساتھ نہیں تھا، میرے دوست کے بھائی نے کہا کہ میں خود ہی چلا جاؤں گا، دوست کے بھائی نے اسی کی دوسری گاڑی پسند کر لی اور لے لی۔
اب بتائیں کہ میری کمیشن بنتی ہے کہ نہیں؟
*** کا بیان
میرے بھائی *** کو ایک عدد گاڑی مطلوب تھی، اس کے لیے ہم نے ایک ایجنٹ سے بھی رابطہ کیا، اس نے ہمیں کچھ گاڑیاں دکھائیں، مگر سودا نہ ہو سکا۔
ہمارے ایک دوست نے ہمیں ایک شو روم کا بتایا، ایجنٹ نے کہا میں بھی اسے جانتا ہوں۔ ہم نے اس کو صاف بتا دیا کہ اس میں آپ کو کوئی کمیشن نہ ہو گی البتہ دوسری طرف میں ہمارا حصہ ہو گا۔ اس ایجنٹ نے اس کو تسلیم کیا۔
سوال: ہم اس کو کمیشن نہ دینے اور دوسری طرف کی کمیشن کا حصہ وصول کرنے کے مجاز ہیں یا نہیں؟
*** کا بیان
*** (کار ڈیلر) نے مجھے اور میرے بھائی *** کو کئی گاڑیاں دکھائیں۔ اس دوران ہم نے *** سے *** (Ak Motors) والے کا ذکر کیا، *** نے کہا کہ میں بھی اس کو جانتا ہوں، لیکن نہ اس کے پاس *** کا فون نمبر تھا نہ اس کے گھر کا پتہ معلوم تھا، ہم نے *** کا نمبر اپنے ایک اور دوست سے لیا اور *** کے ہمراہ *** کے گھر پہنچ گئے، *** نے *** کو ایک طرف لے جا کر کہا کہ میں ایک فیصد کمیشن آپ سے لوں گا۔ اسی مجلس میں مختلف گاڑیاں موبائل میں *** نے ہمیں دکھائیں، میں نے ایک سلور گاڑی پسند کر لی، *** اس کے 2525000 (پچیس لاکھ پچیس ہزار) مانگ رہا تھا، ہم اس کو 2475000 روپے کا کہہ رہے تھے، میں نے *** کو بیعانہ دینا چاہا تو *** نے کہا کہ کل شو روم آکر دے دیجئے گا۔ میرے ذہن میں تھا کہ *** حتمی ادائیگی میں 2480000 روپے پر مان جائے گا۔
*** کے گھر سے واپسی پر میں نے *** سے گاڑی میں کہا کہ آپ ہمیں یہ گاڑی اس قیمت میں دلوا دیں، تو *** نے کہا میں کمیشن لوں گا تو میں نے کہا کہ ہم آپ کا حق ضرور دیں گے۔
اگلے دن میں مصروفیت کی بناء پر شو روم نہ جا سکا، اس کے اگلے دن میں صبح بیعانہ لے کر شو روم پہنچا تو سلور گاڑی کھڑی ہوئی تھی، میں نے *** کو بیعانہ دینا چاہا تو *** نے کہا کہ آپ کل نہیں آئے اور میں نے رات کو آپ سے رابطہ کی کوشش بھی کی تھی، اس لیے میں نے گاڑی دوسرے گاہک کو بیچ دی۔ شو روم پر اس وقت اسی قسم کی کالی گاڑی بھی کھڑی تھی، جس کی قیمت 2425000 تھی، لیکن مجھے کالا رنگ نہ پسند تھا، حالانکہ *** کے گھر میں *** نے مجھے کالی گاڑی خریدنے کا کہا بھی تھا، میں اس دن بغیر گاڑی خریدے گھر واپس آ گیا۔ ہفتہ دس دن میں مختلف شو روموں پر گاڑی ڈھونڈتا رہا، لیکن بالآخر میں نے *** کے شو روم سے آگر کالی گاڑی خرید لی۔ میں *** کو کالی گاڑی پر کوئی کمیشن نہ دیا، کیونکہ جس سودے پر کمیشن طے ہوا تھا وہ تو ختم ہو چکا تھا، البتہ *** نے *** سے لڑ جھگڑ کر 15000 روپے کمیشن وصول کر لیا۔ بعد میں *** نے مجھ سے گلہ کیا کہ اگر *** تمہارے ساتھ تھا تو مجھے پہلے بتا دیتے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ایک ہوتا ہے Broker (دلال) جو بائع اور خریدار کو سودے کے لیے ایک دوسرے سے ملاتا ہے اور یہ دونوں خود سودا کرتے ہیں۔ دوسرا وکیل بالبیع یا وکیل بالشراء ہوتا ہے، یہ ایک وقت میں صرف ایک کی نمائندگی کرتا ہے دونوں کی نہیں۔ خریدار یا بائع خود سودا نہیں کرتے بلکہ اپنے وکیل کو سودا کرنے کا کہتے ہیں اور وکیل سودا کرتا ہے اور مؤکل اس کو اجرت دیتا ہے۔
پہلے اور دوسرے میں فرق یہ ہوتا ہے کہ اگر رواج ہو تو پہلا دونوں طرف سے کمیشن وصول کر سکتا ہے جبکہ دوسرا صرف ایک طرف سے یعنی اپنے مؤکل سے اجرت وصول کر سکتا ہے دوسرے سے نہیں۔
ہمارے علاقوں میں دونوں کو کمیشن ایجنٹ کہہ دیا جاتا ہے۔
مذکورہ صورت میں *** کی حیثیت چونکہ دلال کی تھی اور سودا ایک خاص گاڑی میں تھا، جب وہ گاڑی پہلے ہی بک گئی تو *** کی دلالی ختم ہو گئی آگے، *** نے سودا نہیں کروایا یعنی بائع اور خریدار کو دوسری گاڑی کے لیے نہیں ملوایا اس لیے *** کی دلالی نہ ہوئی اور وہ اجرت کا مستحق نہ بنا۔ البتہ *** کو چاہیے تھا کہ وہ *** کو بتا دیتا کہ سودے کی گاڑی بِک چکی ہے اور اب دلالی باقی نہیں رہی۔
باقی *** کا یہ کہنا کہ "دوسری طرف سے جو کمیشن ملے گا اس میں *** وغیرہ کا حصہ ہو گا” فضول اور غیر مؤثر بات ہے۔ کیونکہ *** نہ بروکر ہے اور نہ کمیشن ایجنٹ۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved