• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کمیشن لینے کی صورت

استفتاء

حضرت ایک شخص جس کا نام مثلا زید ہے اس کو ریاض نامی شخص نے کہا کہ میرے پاس دو لاکھ بیس ہزار میں حرم کے اندر خدمت کرنے کے لئے ویزے آئے ہوئے ہیں کوئی بندہ لے کر آؤ زید نے اپنے دوست خالد کو تیار کیا دو لاکھ ستر ہزار میں ،اورخالد کو یہ کہا کہ ریاض میرا دوست ہے وہ ویزابھیج رہا ہے دو لاکھ ستر ہزار میں دو سال کے لئے ۔اور زید نے ریاض کو جو کہ ایجنٹ ہےکال کر دی کہ میں اپنے دوست خالد کو لارہا ہوں اور اس کو میں نے دو ستر میں بک کیا ہے دو لاکھ بیس ہزار آپ کا اور50ہزار میرا ہو گا آپ نے اس سے دولاکھ سترہزار کی ہی بات کرنی ہے لیکن میرے دوست کو یہ نہیں بتانا کہ پچاس ہزار میں رکھوں گا اب خالد چلا گیا وہاں جا کے اپنے گروپ کے لڑکوں سے پتہ لگا کہ ریاض نے پیسے زیادہ لیے ہیں خالد کے جانے کے بعد ریاض نے خالد کے گھر والوں کو ان کے مطالبے پر 20 ہزار روپے واپس کردیئے اب جو پچاس ہزار زید نے رکھے ہیں کیا وہ جائز ہیں یا نہیں اگر ناجائز ہیں تو کیا عمرہ پر جانے سے پہلے ا ن کا لوٹانا ضروری ہے؟ یہ یاد رہے کہ خالد اور اس کے اہل خانہ دولاکھ سترہزار پر راضی تھے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مڈل مین کے کمیشن جائز ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کا کمیشن پر کام کرنا مشہورومعروف ہو اور اگر مشہور ومعروف نہ ہو تو کم ازکم دونوں فریقوں کو معلوم ہو کہ مذکورہ معاملہ کمیشن پر ہورہا ہے ۔بغیر بتائے خفیہ کمیشن رکھنا جب کہ اگلا آدمی اسے ہمدرد اور خیر خواہ سمجھتا ہو دھوکا اور ناجائز ہے۔مذکورہ صورت میں  زید کا نہ یہ کام تھا اور نہ اس خاص معاملے میں خالدکو زید کا کمیشن ایجنٹ ہونا معلوم تھا بلکہ زید نے خفیہ کمیشن  لی ہے۔ اس لئےمذکورہ کمیشن لینا جائز نہیں،زید پر لازم ہے کہ وہ  خالد یااس کے اہل خانہ کو یہ پیسے واپس کرے یا ان کو بتا کر معاف کروائے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved