• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کمیشن لینے کی ایک صورت

استفتاء

زید (فرضی نام)نے اپنے ماموں کے لیے پلاٹ خرید نا تھا وہ عمرو کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے پلاٹ چاہیے ، عمرو نے اپنے دوست بکر کو پہلے سے کہا ہوا تھا کہ جو بھی گاہک میں تمہارے پاس بھیجوں گا ، تم مجھے اس کا آدھا کمیشن دو گے یعنی تمہیں اس معاملے کا جتنا کمیشن ملے گا اس کا آدھا کمیشن مجھے دو گے ۔ چنانچہ عمرو نے زید کو بکر کے پاس بھیجا، اب زید نے بکر کے پاس جا کر کہا کہ میں بھی پراپرٹی ڈیلر ہوں اور میں نے یہ پلاٹ کسی اور کے لیے خریدنا ہے اس لیے تم مجھے بھی اس میں کمیشن دو، زید نے بکر سے کمیشن اس لیے لی کہ وہ اپنے ماموں سے کم ماموں سے کمیشن نہیں لے سکتا تھا اس پر بکر نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم کل کمیشن کو 3 حصوں پر تقسیم کریں گے یعنی اگر 60 ہزار کمیشن ہو گی تو تینوں میں سے ہر ایک کو 20 ہزار مل جائیں گے۔ بکر نے دونوں پارٹیوں سے کمیشن لی ہے ( بکر پلاٹ کا مالک نہیں تھا بلکہ وہ مالک کا ایجنٹ تھا، بکر نے جس کا پلاٹ بگو ایا ہے اس سے بھی کمیشن لی ہے اور جس کو بیچا ہے اس سے بھی کمیشن لی ہے ) تینوں پارٹیوں کو اس بات کا علم ہے کہ کمیشن تین حصوں میں تقسیم ہو گی۔ اس کے بعد بکر نے وہ پلاٹ زید کو بیچ دیا اور زید کو اس کے حصے کے 20 ہزار دے دیے جبکہ عمرو سے کہا کہ مہنگائی بہت ہے لہذا تم 20 ہزار کی جگہ 10 ہزار لے لو اور عمر و بھی اس کمی پر راضی ہے۔

1) کیا ند کورہ صورت میں تینوں ( زید ، عمرو، بکر ) کا کمیشن لینا جائز ہے ؟

(2) کیا بکر کے لیے عمرو کا ایک تہائی (20 ہزار) کمیشن طے کرنے کے بعد اس میں کمی کرنا جائز ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زید کا تو کسی سے بھی کمیشن لینا جائز نہیں ، نہ اپنے موکل ( ماموں) سے اور نہ بکر سے ، اپنے موکل (ماموں) سے تو اس لیے کہ اس نے اپنے موکل (ماموں) سے کمیشن لینا نہ تو طے کیا ہے اور نہ اس کا کمیشن ایجنٹ ہونا معروف ہے اور نہ ہی یہ اپنے موکل (ماموں) سے کمیشن لینا چاہتا ہے۔ اور بکر سے اس لیے لینا جائز نہیں کہ زید بکر کا نہ وکیل (ایجنٹ) ہے اور نہ بکر کے لیے دلال (بروکر) ہے اور بکر کے لیے اگر چہ اپنے موکل ( پلاٹ بیچنے والے) سے کمیشن لینا جائز تھا لیکن زید کے موکل (ماموں) سے کمیشن لینا جائز نہیں کیونکہ بکر زید یا اس کے موکل (ماموں) کے لیے نہ وکیل (ایجنٹ )ہے اور نہ دلال (بروکر) ہے لہذا ابکر نے جو کمیشن زید کے موکل (ماموں) سے لی ہے وہ زید کے ماموں کو واپس کرنا ضروری ہے اسی طرح بکر نے زید کو جو کمیشن دی ہے وہ زید سے واپس لینے کا حقدار ہے۔ اور عمرو نے جو کمیشن بکر سے لی ہے وہ درست ہے کیونکہ عمرو مذکورہ صورت میں دلال ( بروکر ) ہے اور دلال ( بروکر ) کا دونوں پارٹیوں سے یا ان کے وکیلوں ( ایجنٹوں) سے یا ان میں سے کسی ایک سے کمیشن لینا جائز ہے۔

توجیہ : مذکورہ صورت میں زید ، خریدار (اپنے ماموں) کا وکیل ( ایجنٹ) ہے اور بکر بیچنے والے کا وکیل (ایجنٹ) ہے اور عمر و در میان میں دلال ( بروکر) ہے۔ وکیل (ایجنٹ) صرف اپنے موکل ( جس نے اس کو خرید نے یا بیچنے کا وکیل بنایا ہے اس) سے کمیشن لے سکتا ہے اور وہ بھی تب جب وکیل ( ایجنٹ) کا کمیشن پر کام کرنا معروف ہو ورنہ موکل کو بتا کر لینا ورنہ انہ ہوگا نبی بنا لیا جائز ہ ہو گاہ زید کی بھی پائی سے کمشن لینے کا حقدار نہیں ہے ہم اپنے اموں سے اور نہ بکر جائز بغیر بتائے لہذازید سے اور بکر نے اس کو جو کمیشن دی ہے وہ چاہے تو زید سے واپس لے سکتا ہے کیونکہ زید نہ تو بکر کا وکیل ( ایجنٹ ) ہے اور نہ ہی دلال ( بروکر) ہے جبکہ بکر چونکہ پلاٹ بیچنے والی پارٹی کا وکیل ( ایجنٹ ) ہے اس لیے وہ صرف اس پارٹی سے کمیشن لے سکتا ہے دوسری پارٹی سے کمیشن نہیں لے سکتا لہذا اس نے دوسری پارٹی سے جو کمیشن لیا ہے وہ واپس کرے گا اور اسی طرح اس نے زید کو جو کمیشن دی ہے اس کو بھی زید سے واپس لینا چاہے تو لے سکتا ہے۔ اور عمر و چونکہ دلال ہے اور دلال ( بروکر) دونوں پارٹیوں ( بیچنے والی اور خریدنے والی) سے یا دونوں وکیلوں ( ایجنٹوں) سے کمیشن لے سکتا ہے لہذا عمرو کا بکر سے کمیشن لینا جائز ہے۔

2)جب عمر اس کمی پر رضامند ہے تو جائز ہے۔

الدر المختار (7/93) میں ہے:

الدلال ان باع العين بنفسه باذن ربها فاجرته على البائع وان سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف

 وفي شامىة : وليس له اخذ شيئ من المشترى لانه هو العاقد حقيقة وظاهره ان لا يعتبر العرف هنا لانه لا وجه له

المحیط البرہانی(11/241)میں ہے:

ولو وهب بعض الاجرة او ابرا عن بعض الاجرة جاز بلا خلاف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved