- فتوی نمبر: 18-114
- تاریخ: 21 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > کمپنی و بینک
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک کمپنی ہے جس کے دو پارٹنر ہیں جو باہر سے سامان منگواکر اپنی دکان پر بیچتے ہیں، انہوں نے دکان پر سامان بیچنے کے لئے اپنا ایک کزن (رشتہ دار)رکھا ہوا ہے، جس کو سامان بیچنے پر فیصد کے حساب سے کمیشن ملتا ہے ۔
اب وہ کمپنی ایک شخص سے سرمایہ انویسٹ کروانا چاہ رہی ہے جس کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس سرمائے پر جو نفع ہوگا اس کا 47فیصد کمپنی کا ہوگا47فیصد انویسٹر کا ہوگا اور چھ فیصد سامان بیچنے والے کا ہوگا،انویسٹر بھی راضی ہے۔
کیا یہ طریقہ درست ہے؟ اور نقصان کی صورت میں نقصان کس کا شمار ہوگا؟
نوٹ: انویسٹر کی رقم کا علیحدہ حساب کتاب ہوگا ،اسے کمپنی کے رقم میں شامل نہیں کیا جائے گا اور دکان کے مالک کی دو دکانیں ہیں اور وہ دونوں جگہ پر خود بھی وقت دیتا ہے،خود کام بھی کرتاہے یعنی خاص مضاربت کے کام کےلیے ملازم رکھنے کی مجبوری نہیں ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ معاملہ میں تین پارٹیاں شامل ہیں ،کمپنی، انویسٹر اور دکان پر بیچنے والا کزن ۔
کمپنی اور انویسٹر کا تعلق آپس میں مضاربت کا بنتا ہے اور انویسٹر کا مال ہوگا اور کمپنی کا کام ہوگا اور دکان پر بیچنے والا کزن کمپنی کا ملازم ہے اور یہ ملازمت ایسی نہیں ہے کہ خاص مضاربت کے کام کے لئے اسے ملازم رکھا گیا ہو بلکہ وہ پہلے سے ملازم ہے اور خاص مضاربت کے لئے اسے ملازم رکھنے کی بھی کوئی مجبوری نہیں ہے، اس لیے اس ملازم کی تنخواہ مال مضاربت میں سے نہیں طےکی جا سکتی، بلکہ وہ کمپنی کے ذمے ہوگی البتہ ملازم کو چھ فیصد چونکہ رب المال یعنی انویسٹر کی اجازت سے دیا جائے گا، اس لئے اس کی یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ گویا 53 فیصد نفع مضارب کا ہے جس میں سے وہ چھ فیصد اپنے ملازم کو دے گا اور سنتالیس فیصد رب المال کاطے ہے ،لہذا مذکورہ معاملہ جائز ہے،البتہ دکان والے کزن کی کل اجرت بہرصورت کمپنی کے ذمے ہوگی۔
نوٹ:نقصان کی صورت میں نقصان اگر مضارب کی کوتاہی کے بغیر ہو تو پہلے نفع میں سے پورا کیا جائے گااورنقصان پورا کرنے کے بعد کچھ نفع بچے گا تو وہ دونوں میں طے شدہ شرح سے تقسیم ہوگا۔اورپھر رأس المال میں سے پورا کیا جائے گا اورمضارب کی کوتاہی ہوتو سارا نقصان مضارب بھرے گا۔
ماده:1425
المضارب انما يستحق الربح في مقابلة عمله والعمل انما يکون متقوما بالعقد فاي مقدارشرط للمضارب في عقدالمضاربة من الربح ياخذ حصته بالنظراليه
المعايير الشرعية(معيارالمضاربة:9/4)
يتولي المضارب بنفسه کل الاعمال التي يتولاه المستثمرون مثله بحسب العرف ولايستحق اجرا علي ذلک لانها من واجباته فاذا استاجرمن يقوم له بذلک فاجرته من ماله الخاص وليس من مال المضاربة
کفایت المفتی(8/117)میں ہے:
جواب:(142)مضاربت میں جب کہ رب المال نے مضارب کو منع نہ کردیا ہوتجارت کو فروغ دینے کے لیے اشتہار دینا ضرورت پر ملازمین رکھنا عرف تجارت کے اندر جائز ہے اور یہ مصارف نفع میں سے لئے جائیں گے ان کو وضع کرنے کےبعد جونفع بچے گا اس میں سے قرارداد کے موافق 1/4مضارب کو ملے گااوراگر رب المال نے کسی خاص کام مثلا اشتہار دینے یا ملازم رکھنے سے صراحتاًمنع کردیا ہو یا مضارب نے عرف تجار کی حدسے تجاوز کیا ہو تو یہ مصارف مضارب کے حصہ نفع میں سے محسوب ہوں گے ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved