- فتوی نمبر: 16-22
- تاریخ: 17 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت قرآن اور سنت کی روشنی میں ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں ،رہنمائی فرمائیے گا
مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص سعودی عرب کی کسی کمپنی میں کام کرتا ہے اور کمپنی کے ساتھ ملازمت کے معاہدے میں یہ بات طے پائی ہے کہ کمپنی ہر ماہ ملازم کی تنخواہ میں سے دس فیصد تنخواہ کاٹ لے گی اورپھر اتنی ہی رقم کمپنی اپنی طرف سے ڈال کرملازم کے اکاونٹ میں جمع کرتی رہے گی جو اس کمپنی سے ریٹائر ہونے پر مل جائے گی تاکہ ریٹائرمنٹ کےبعد اس کا گھر بار چلانے کے کام آسکے لیکن ہوتا یہ ہے کہ کمپنی ملازم کی تنخواہ سے اس مد میں کاٹی ہوئی رقم اور اپنی کنٹریبیوشن (کمپنی کاحصہ)دونوں الگ الگ کسی نامعلوم جگہ پرانویسٹ کرتی چلی جاتی ہے اور پھر اس مد میں ہونے والی آمدنی کو گین اور ارنینگ ظاہر کرکے جو کہ فکس آمدنی نہیں ہوتی بلکہ ہر مہینے کبھی 3فیصد کبھی1.5فیصد وغیرہ کی شرح سے دیا جاتا تھا جو ایمپلائی کے لیے اختیاری تھا چاہےلے اور چاہے چھوڑدے ۔یہ سب آخر میں ایمپلائی کو اس کی اصل رقم (کٹوتی اور کمپنی کی کنٹریبیوشن)کےساتھ ملاکر دے دے تو ملازم اس اضافی اورمشکوک رقم کا کیا کرے؟یہاں یہ بات واضح کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کمپنی اس اضافی رقم کو کہیں بھی سودیا پرافٹ کانام نہیں دیتی لیکن پھر بھی لینا یا نہ لینا ایمپلائی کے لیے اختیاری ہے:
1۔کیا وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرلے؟
2۔اگر نہیں تو پھر اس کا کیا مناسب مصرف ہوسکتا ہے؟
3۔کیا وہ یہ مال اپنے غریب یا تنگدست قریبی رشتہ داروں پر ثواب کی نیت سے خرچ کرسکتا ہے؟
4۔رشتے داروں کو کاروبار کے لیے قرض کےطور پر دےسکتا ہے؟
5۔کسی مدرسے پر خرچ کی جاسکتی ہے؟
6۔کسی خیراتی شفاخانے پراستعمال کی جاسکتی ہے؟
7۔شفاخانے کی تعمیرمیں حصہ ڈالاجاسکتا ہے؟
8۔ان محنت کشوں کی معاونت کی جاسکتی ہے جو بعض اوقات محنت مزدوری کرکے بھی اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوں؟
9-زکوۃ کے مصارف پر استعمال کی جاسکتی ہے؟
10۔اوپر دیئے گئے مصارف کے علاوہ یا ان میں سے کسی اور مصرف میں جائز ہے تو برائے مہربانی راہنمائی فرمادیں
تنقیح
1۔کمپنی جو ہماری تنخواہ سے دس فیصد کٹوتی کرتی تھی وہ اختیاری نہیں تھی مطلب اس کو ہم بند نہیں کرواسکتے تھے۔
2۔آگے اس رقم کو انویسٹ کرنا ہمارے اختیار میں تھا کہ اگر انویسٹ کرنا چاہیں تو کریں ورنہ ختم بھی کرسکتے تھے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ملازم کی تنخواہ سے کاٹی گئی رقم اور کمپنی کی طرف سے شامل کی گئی رقم کو ملازم کی رضامندی سے کمپنی آگے کسی کو دیتی ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کمپنی آگے کہاں جمع کرواتی ہے اور ان کا طریقہ کار کیا ہے ،اس لیےاس اضافی رقم کو لینا جائز نہیں۔فقط
جواہر الفقہ (3/283)میں ہے:
اگر کوئی ملازم اپنی پراویڈنٹ فنڈ کی رقم کو درخواست دے کرکسی بیمہ کمپنی میں منتقل کرادے یا یہ فنڈ ملازم کی رضامندی سے کسی مستقل کمپنی کی تحویل میں دے دیا جائے جیسے کہ بعض غیر سرکاری کار خانوں میں ہوتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے خود وصول کرکے بیمہ کمپنی یا کمیٹی کو دے اس لیے اس رقم پر جو سود لگایا جائے وہ شرعا سود ہی کے حکم میں ہےاورقطعا حرام ہے کیونکہ اس صورت میں بیمہ کمپنی یا کمیٹی اس کی وکیل ہوجاتی ہے اوروکیل کاقبضہ شرعا موکل کا قبضہ ہوتا ہے پھر تنخواہ کی رقم پر قبضہ کے بعد اس کا سود لینا قطعا حرام ہے
© Copyright 2024, All Rights Reserved