• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کمپنی کی طرف سے ملے پلاٹ پر زکوۃ کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بھائی کو کمپنی کی طرف سے جولائی 2016کو پشاور ڈی ایچ اے میں ایک پلاٹ ملا ہے ۔دسمبر 2017میں بالوٹنگ میں پلاٹ کا نمبر ایشو ہو گیا لیکن ابھی تک اس علاقے کا نقشہ نہیں بنا یعنی نشاندہی نہیں ہوئی کہ پلاٹ کہاں ہے اگر وہ چاہیں تو اس کو سیل کرسکتے ہیں ۔سوال یہ ہے کیا اس پلاٹ پر زکوۃ بنتی ہے ؟اگر بنتی ہے تو کب سے واجب الاداء ہے ؟

وضاحت مطلوب ہے :

(۱)کمپنی کی طرف سے پلاٹ ملنے کی تفصیل بیان کریں کہ قیمتا ملایا کوئی پالیسی وغیرہ تھی؟(۲)آپ کے بھائی نے جب سے یہ پلاٹ لیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک ان کی نیت آگے بیچنے کی ہے یا نہیں؟

جواب وضاحت:

(۱)ریٹائر منٹ پر ملا ۔سب ریٹائر ہونے والوں کو ملا ہے ابھی صرف 25000جمع کرواتے ہیں باقی رقم پر چھ ماہ بعد قسطوں میں دینی ہے ۔بیس بائیس سال تک ساری قسطیں جمع کروا کر قبضہ ملتا ہے اور گھر بنایا جاسکتا ہے لیکن اگر فروخت کرنا چاہیے تو کرسکتا ہے با قی قسطیں خریدار دے گا۔ (۲)بیچنے کی نیت ہے ،بیچ کر مسجد بنانے کی نیت ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے بھائی پر اس پلاٹ کی زکوۃ بنتی ہے یا نہیں ؟اس بارے میں دونوں طرح کے اقوال ہیں ۔ہماری رائے یہ ہے کہ اگر آپ کے بھائی بسہولت اس کی زکوۃ دے سکتے ہیں تو دے دیں کیونکہ اس میں احتیاط ہے اور اگر زکوۃ دینے میں مشقت ہے تو نہ دینے کی بھی گنجائش ہے ۔

في الدر وسببه اي سبب افتراضها (الزکوة)ملک نصاب حولي ۔۔۔تام ۔۔۔فلازکوة علي مکاتب ۔۔ولافيما اشتراه لتجارة قبل قبضه

حاشية ابن عابدين (2/ 263)

قوله ( قبل قبضه ) أما بعده فيزکيه عما مضي کما فهمه في البحر من عبارة المحيط فراجعه لکن في الخانية رجل له سائمة اشتراها رجل للسيامة ولم يقبضها حتي حال ثم قبضها لا زکاة علي المشتري فيما مضي لأنها کانت مضمونة علي البائع بالثمن اه  ومقتضي التعليل عدم الفرق بين ما اشتراها للسيامة أو للتجارة فتأمل

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved