• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کمپنی میں انٹر نیٹ کے غلط استعمال کا گناہ کس کو ہوگا

استفتاء

میں ایک فیکٹری میں آفس کا کام کرتا ہوں ،ہمارے باس نے آفس استعمال کے لیے انٹرنیٹ لگوایا ہے جس کا اکاؤنٹ میرے نام پر بنا ہے ،تو اگر اس انٹرنیٹ پر فیکٹری کے ورکرز جن کو باس نے انٹرنیٹ دیا ہے  کوئی گانا/ فلم دیکھتے ہیں یعنی گناہ کا کام کرتے ہیں اس کا گناہ مجھے تو نہیں ہوگا ؟میں نے فیکٹری کے کام کے لیے ایک لڑکے کو بھی انٹر نیٹ لگا کر دیا ہے اب وہ دوسرے لڑکوں کو بھی دے رہا ہے کیا اسکا گناہ مجھے ہو گا ؟

وضاحت مطلوب ہے:  (1) آپ کے نام پر اکاؤنٹ بننے کی وجہ کیا ہے؟(2) کیا آپ کو پہلے سے علم تھا کہ اس کا غلط استعمال بھی ہوگا؟(3)  لڑکے کو دینے کی وجہ کیا تھی؟ باس  کی طرف سے اجازت تھی؟

جواب وضاحت: (1) ميں آفس کا سینئر ملازم تھا اور اس دن باس آفس نہیں آئے تھے اس وجہ سے میرے نام کا اکاؤنٹ بنا ہے۔ (2) انٹرنیٹ صرف فیکٹری استعمال کے لیے بنا ہے ، صرف واٹس ایپ  استعمال کے لیے کیونکہ زیادہ تر آن لائن کلائنٹ سے رابطہ ہوتا ہے (3) باس کو اس کا پتہ  ہے کہ کس کس کے پاس انٹرنیٹ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں فیکٹری ملازمین کے انٹرنیٹ کو غلط استعمال کرنے کا گناہ سائل  کو نہیں ہوگا، تاہم جن کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ انٹر نیٹ کا غلط استعمال کرتے ہیں تو نہی عن المنکر کے پیش نظر ان  کو تنبیہ کرتے رہیں جس میں مالک  انہیں ملازمت سے فارغ کرنے کی دھمکی  بھی دے سکتا ہے ۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں ایک تو ملازم کے نام پرانٹر نیٹ  بوجہ مجبوری  لگا ہے حقیقتاً لگوانے والا مالک ہے نیز مالک نے بھی اصلاً دفتر کے کاموں کے لیے لگوا کر دیا ہے غلط استعمال ورکر کا ضمنی  فعل ہے اس لیے سائل اور  مالک  دونوں  کو گناہ نہ ہوگا اس کی نظیر یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو رہائش کے لیے مکان اجارہ پر دے  اور مکان کرایہ پر لینے والا شخص اس مکان میں کوئی گناہ کا کام کرے تو  اس گناہ کی نسبت مکان دینے والے کی طرف نہ ہوگی اور اس کی وجہ سے مکان دینے والے شخص کو گناہ نہ ہوگا ۔

شرح النووی على مسلم (2/ 25) میں ہے:

«من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان………….. قال القاضي عياض رحمه الله هذا الحديث أصل في صفة التغيير فحق المغير أن يغيره بكل وجه أمكنه زواله به قولا كان أو فعلا»

المبسوط للسرخسی(16/ 39) میں ہے:

ولا بأس ‌بأن ‌يؤاجر ‌المسلم دارا من الذمي ليسكنها فإن شرب فيها الخمر، أو عبد فيها الصليب، أو أدخل فيها الخنازير لم يلحق المسلم إثم في شيء من ذلك؛ لأنه لم يؤاجرها لذلك والمعصية في فعل المستأجر وفعله دون قصد رب الدار فلا إثم على رب الدار في ذلك

المحيط البرہانی (7/ 483) میں ہے:

وإذا استأجر الذميّ من المسلم ‌داراً ‌ليسكنها فلا بأس بذلك؛ لأن الإجارة وقعت على أمر مباح فجازت وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير، لم يلحق المسلم في ذلك شيء لأن المسلم لم يؤاجر لها إنما يؤاجر للسكنى، وكان بمنزلة ما لو أجر داراً من فاسق كان مباحاً، وإن كان يعصي فيها

الأصل للشیبانی  (3/ 465) میں ہے:

وإذا استأجر الرجل من أهل الذمة داراً بالكوفة من رجل مسلم سنة بأجر معلوم فهو جائز. فإن كان الذمي نصرانياً فاتخذ فيها مصلى يصلي فيه خاصة دون الجماعة وأراد رب الدار أن يمنعه، فليس لرب الدار أن يمنعه أن يتخذ فيها مصلى لنفسه خاصة، فإن أراد أن يتخذ فيها مصلى للعامة أو يضرب فيها بالناقوس فلرب الدار أن يمنعه ذلك، وليس ذلك من قبل أنه يملك الدار، ولكن من قبل أني أكره أن يحدث في أمصار المسلمين، ولرجل من المسلمين أن يمنعه ذلك كما يمنعه رب الدار. وكذلك لو أراد أن يبيع فيها الخمر منعه ذلك.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved