• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کنسٹرکشن کے کام میں پارٹنرشپ سے متعلق سوال

استفتاء

1۔میں نے ایک شخص کے ساتھ کنسٹرکشن کے کام میں پارٹنرشپ کی۔ میرے اور اس کے درمیان یہ طے ہوا ہے کہ اگر میں اپنے ذرائع سے کام لے کر آؤں گا تو نفع کا تیس فیصد حصہ میرا ہوگا اور ستر فیصد اس کا ہوگا۔ میں جب بھی پروجیکٹ کی سائیٹ پر جاتا ہوں تو پوری کوشش کرتا ہوں کہ کام سو فیصد ٹھیک ہو اور اس کو بھی اسی بات کی تلقین کرتا ہوں اور میرے سامنے کبھی کوئی ایسا معاملہ نہیں آیا کہ مجھے لگے کہ یہ کام ٹھیک نہیں ہو رہا لیکن مجھے کسی تیسرے شخص نے بتایا ہے کہ مٹیریل کے اندر وہ دو نمبری کر رہا ہے لیکن اس سے کافی دفعہ پوچھنے کے باوجود وہ اس چیز سے انکاری ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ پوچھنا یہ تھا کہ کیا میرے لیے اس پارٹنر شپ کی کمائی ٹھیک ہے؟

2۔ہم جہلم میں ایک ادارے کے ساتھ ٹھیکے پر کام کر رہے ہیں ٹھیکہ میں ریٹ کم تھے تو انہوں نے ہمیں کہا کہ آپ کام شروع کریں ہم ریٹ کے بارے میں کچھ کریں گے۔ اب انہوں نے ریٹ کو تو نہیں بڑھایا لیکن وہ ہمیں کہتے ہیں کہ مثلاً اگر ہم نے 100 فٹ کوئی چیز ڈالنی ہے جس کا ریٹ وہ ہمیں 10 روپے کے حساب سے دے رہے ہیں تو ریٹ تو 10 روپے کے حساب سے ہی دیں گے لیکن ادائیگی 100 فٹ کی بجائے 120 فٹ کی کریں گے۔ یہ سب ادارہ خود کر رہا ہے اور ہمیں اپروو کر کے دے رہا ہے کہ ہم کام 100 فٹ کا ہی کریں گے لیکن وہ ہمیں پیمنٹ 120 فٹ کی کریں گے کیونکہ ریٹ تھوڑا ہے تو اس طریقے سے وہ ہمیں اس کی ایڈجسٹمنٹ کر رہے ہیں تو کیا اس معاملے کی کمائی ہمارے لیے ٹھیک ہوگی؟

3۔ہمارا کوئی قانونی کام ہے مثلاً ایک ادارے نے ہمیں ایک کروڑ روپیہ پیمنٹ کرنی ہے جو کہ ہم نے ان سے وصول کرنی ہے تو وہاں پر جو کلرک ہے وہ اس پر فیصدکے حساب سے ہم سے پیسے مانگتا ہے اس کے بغیر ہمارا چیک نہیں بناتا ۔ہم نے اس کو ایک دو دفعہ پیسے نہیں دیے تو اس نے ہمارا غلط چیک بنا دیا اور ہم دو مہینے اس کے پیچھے جاتے رہے کہ اس کو ٹھیک کر دیں اور بالآخر اس نے پیسے لے کر ہی اس کو ٹھیک کیا تو اس معاملے میں ہمارے لیے اس کو رشوت دینا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔اگر یہ بات آپ کو ظن غالب سے معلوم ہے تو پھر آپ کی کمائی ٹھیک نہیں ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ٹھیک ہے۔

2۔ادارے کے کارندوں کے لیے اس طرح غلط بیانی سے کام لینا جائز نہیں ہے اور آپ کا اس میں تعاون کرنا بھی درست نہیں ہے اور اس زائد کی کمائی لینا بھی آپ کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

3۔اپنے حق کی وصولی کے لیے اسے  رشوت دینے کی بدرجہ مجبوری گنجائش ہے لیکن لینے والے کے حق میں وہ پھر بھی رشوت ہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved