- فتوی نمبر: 3-225
- تاریخ: 26 نومبر 2009
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور کے مالک نے اپنے سٹور میں مختلف لوگوں کو مختلف کاروباروں کے لیے تھوڑی تھوڑی جگہ دے رکھی ہے، کسی کے پاس گارمنٹس کا کاؤنٹر ہے ، کسی کے پاس کراکری کا جن سے وہ کمیشن لیتا ہے جبکہ کرایہ طے نہیں کرتا ہے۔ ہمیں بھی اس نے میڈیکل سٹور کے لیے اپنے سٹور میں جگہ دے رکھی ہے جس کا کرائیہ طے نہیں بلکہ کرایہ کی صورت یہ ہے کہ ہفتہ بھر کی سیل جو کہ کمپیوٹر میں فٹ ہو جاتی ہے اس سیل کا سات فیصد لوکل میڈیسن پر جبکہ 17 فیصد امپورٹڈ میڈیسن پر کاٹ کر باقی رقم ہمیں دے دیتا ہے۔
جبکہ ادویات کی خریداری پر ہم Invest کرتے ہیں۔ دوائی ایکسپائر (بجلی کے بل وغیرہ ڈیپارٹمنٹل سٹور کا مالک ادا کرتا ہے۔) ہو کر خراب ہوجائے یا کوئی اور نقصان ہو جائے تو وہ ہمارے ذمہ ہے۔ سالانہ لائسنس کی فیس اور دو سیل مین کی تنخواہ بھی ہم دیتے ہیں۔ تقریباً پانچ سال سے ہمارا یہ کاروبار چل رہا ہے۔ اس دوران ہمارا ڈیپارٹمنٹل سٹور کے مالک سے کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔ وہ ہم سے خوش ہیں اور ہم اس سے خوش ہیں۔ لیکن ہمارے ایک دوست مولوی صاحب ہیں ان کا اصرار ہے کہ یہ معاہدہ ناجائز ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ سیل پر کمیشن ناجائز ہے۔ جگہ کا کرایہ طے کیا جائے۔
مہربانی فرماکر اس مسئلہ میں راہنمائی فرمائیں کہ ہمارا موجودہ طریقہ کار ٹھیک ہے یا غلط؟ اگر غلط ہے تو صحیح طریقہ ارشاد فرما دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ طریقے پر کاؤنٹر کرائے پر لینا ہماری موجودہ تحقیق کے مطابق درست نہیں، ناجائز ہے۔ جائز طریقہ یہ ہے کہ کرایہ متعین کیا جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved