- فتوی نمبر: 33-231
- تاریخ: 24 جون 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > کھیل و تفریح
استفتاء
سوال:کرکٹ ٹورنامنٹ کیسا ہے؟ حلال ہے یا حرام؟
جواب: کرکٹ ٹورنامنٹ میں کھیلنے اور اس کا شرعی حکم معلوم کرنے سے قبل ایک تمہید ملحوظ رہنا چاہیے کہ کسی بھی قسم کا کھیل کھیلنا درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1- وہ کھیل بذاتِ خود جائز کھیل ہو، اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔
2- اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت ہو مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ۔
3- کھیل میں غیر شرعی امور (مثلاً جوا وغیرہ) کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔
4- کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔
اگر ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلا جائے تو فی نفسہ ایسا ٹورنامنٹ کھیلنے کی اجازت ہے،تاہم ٹورنامنٹ میں یہ شرط رکھنا کہ ہر ٹیم ایک مخصوص رقم جمع کرائے گی اور پھر اس رقم سے ٹورنامنٹ کے اخراجات نکالنے کے بعد جو رقم بچے گی وہ جیتنے والی ٹیم (ونر ٹیم) کو ملے گی، ٹورنامنٹ میں اس طرح کی شرط “قمار” یعنی جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے،جس سے بچنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔
البتہ اس کی جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اگر مختلف ٹیموں میں مقابلہ کروانے کی کوئی علیحدہ ٹورنامنٹ کمیٹی ہو جس کا تعلق کسی ٹیم سے نہ ہو، اور وہ کرکٹ ٹورنامنٹ کمیٹی ہر ٹیم سے مقابلہ میں داخلہ کی فیس کے طور پر متعین رقم (انٹری فیس) وصول کرے اور یہ رقم (انٹری فیس) کمیٹی کو مالک بنا کر دے دی جائے، پھر ٹورنامنٹ کمیٹی اس جمع شدہ رقم میں سے ٹورنامنٹ کے اخراجات کرے اورجیتنے والوں کو یا کھیل میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو حسبِ صواب دید انعام دے اور اس بارے میں مکمل با ختیار ہو کہ کم یا زیادہ جتنا چاہے انعام مقر رکرے اور چاہے نقد رقم انعام میں دے یا کوئی ٹرافی وغیرہ دے تو یہ صورت جائز ہے ، بشرطیکہ مقابلہ اور کھیل میں مذکورہ شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔
اس پر رہنمائی کریں کہ اس طرح کیا جاسکتا ہے؟ اور اس طرح جائز ہوگا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہمیں مذکورہ فتوی میں اس شق سے کہ” اگر علیحدہ ٹورنامنٹ کمیٹی ہو ۔۔۔۔ اور وہ مکمل بااختیار ہو ۔۔ الخ” اتفاق نہیں ہے ہمارے نزدیک یہ صورت بھی ناجائز ہے البتہ اگر ٹورنامنٹ میں انعام نہ ہو اور کھیلنے والے بھی جائز مقصد مثلا ورزش کی نیت سے کھیلیں تو یہ صورت جائز ہو گی ۔تاہم یہ بات کہ ٹورنامنٹ میں انعام نہ ہو اور کھیلنے والے بھی ورزش کی نیت سے کھلیں عملاً ناممکن ہے لہٰذا مروجہ ٹورنامنٹ تقریباً ہر حال میں ناجائز ہیں۔
شامی(9/663) میں ہے:
ولا يجوز الاستباق في غير هذه الأربعة كالبغل بالجعل وأما بلا جعل فيجوز في كل شيء وتمامه في الزيلعي اهـ ومثله في الذخيرة والخانية والتتارخانية.
ہندیہ (5/352) میں ہے:
المصارعة بدعة وهل تترخص للشبان؟ قال رحمه الله تعالى ليست ببدعة وقد جاء الأثر فيها إلا أنه ينظر إن أراد بها التلهي يكره له ذلك ويمنع عنه وإن أراد تحصيل القوة ليقدر على المقاتلة مع الكفرة فإنه يجوز ويثاب عليه …… كذا في جواهر الفتاوى.
جواہر الفقہ (4/573) میں ہے:
جن کھیلوں سے دینی یا دنیوی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں وہ جائز ہیں بشرطیکہ انہی فوائد کی نیت سے کھیلا جائے محض لہو و لعب کی نیت نہ ہو لیکن اس کی بازی پر کوئی معاوضہ یا انعام مشروط مقرر کرنا جائز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved