- فتوی نمبر: 1-85
- تاریخ: 22 اپریل 2006
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
1۔ ایک آدمی اپنا مال باہر ممالک سے 100روپیہ کااصل قیمت میں خریدتا ہے اور اصل قیمت پر ہی اپنے ملک کے اندر امپورٹ کرتا ہے ۔بندرگاہ پر کسٹم آفیسر زخواہ مخواہ تنگ کرتے ہیں کہ تم نے اصل قیمت 100روپیہ جو کاغذات میں لکھی ہے وہ غلط ہے اسکی قیمت زیادہ ہے اس پر وہ رشوت کا تقاضا کرتے ہیں ۔رشوت ادا کرنے کے بعد اس مال کو اگر بازار میں فروخت کیلئے جائیں تو نقصان ہوتا ہے۔
2۔ دوسرا شخص وہی مال باہر سے 100 روپے میں خریدتا ہے اور کاغذات میں اسکی قیمت 100 کے بجائے 50روپے لکھتا ہے یا 20 روپے لکھتا ہے ۔بندرگاہ پر جب مال آتا ہے تو کسٹم آفیسرز اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں ۔اپنا حصہ طے کرنے کے بعد اسکا مال کم قیمت پر کسٹم ادا کرنے کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے وہ شخص بازار میں جب مال فروخت کرتا ہے تو ہاتھوں ہاتھ مال نکل جاتا ہے۔ کیونکہ اسکی قیمتِ خرید اخراجات کے ساتھ کم پڑتی ہے اور منافع زیادہ ہو جاتا ہے۔آپ سے درخواست ہے کہ بتائیں کونسا کام جائز ہے۔ پہلا کام یا دوسرا کام۔ یہ رشوت اس طرح چل چکی ہے کہ اس میں ہر فیکٹری والا بہت بری طرح Involveہو چکا ہے اور کوئی انسان درست قیمت پر مال نہیں منگوا سکتا ۔ اس طریقے سے رشوت لینے والا اور دینے والے کا کیا انجام ہو گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یہ زمانہ صبر اور قربانی کا ہے ۔تھوڑے نفع پر قناعت کر لیں یا کام کو بدل لیں ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved