- فتوی نمبر: 15-278
- تاریخ: 19 ستمبر 2019
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ڈاڑھی کی مقدار کا مسئلہ
سوال: ڈاڑھی کی مقدار کے حد تعین پر ’’ترجمان ‘‘میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے مجھے تشویش ہے۔ کیونکہ بڑے بڑے علماء کا متفقہ فتوی اس پر موجود ہے کہ ڈاڑھی ایک مشت لمبی ہونی چاہیے اور اس سے کم ڈاڑھی رکھنے والا فاسق ہے۔ آپ آخرکن دلائل کی بنا پر اس اجماعی فتوے کو رد کرتے ہیں؟
جواب :یہ تو انہیں علماء سے پوچھنا چاہیے کہ ان کے پاس مقدار کی تعیین کے لیے کیا دلیل ہے؟ اور خصوصا فسق کی وہ آخر کیا تعریف کرتے ہیں جس کی بنا پر ان کی تعیین کردہ مقدار سے کم ڈاڑھی رکھنے والے پر فاسق کا اطلاق ہوسکتا ہے؟
مجھے سخت افسوس ہے کہ بڑے بڑے علماء خود حدو دو شرعیہ کو نہیں سمجھتے اور ایسے فتوی دیتے ہیں جو صریحا حدود شرعیہ سے متجاوز ہیں ۔داڑھی کے متعلق شار ع نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے علماء نے جوحد مقرر کرنے کی کوشش کی ہے وہ بہرحال ایک استنباطی چیز ہے اور کوئی استنباط کیا ہوا حکم وہ حیثیت حاصل نہیں کرسکتا جونص کی ہوتی ہے۔ کسی شخص کو اگر فاسق کہا جاسکتا ہے تو صرف حکم منصوص کی خلاف ورزی پر کہا جا سکتا ہے، حکم مستنبط کی خلاف ورزی (چاہے استنباط کیسے ہی بڑے علماء کا ہو) فسق کی تعریف میں نہیں آتی ورنہ اسے فسق قراردینے کے دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ استنباط کرنے والوں کی بھی شریعت میں وہی حیثیت ہے جو خودشارع کی ہے۔
حضرت مفتی صاحب مندرجہ بالا سوال کے جواب پر آپ کی رہنمائی درکار ہے مرحمت فرمائیں شکریہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
داڑھی کی حد علماء نے اپنے استنباط سے مقرر نہیں کی بلکہ یہ حد خود شارع کی جانب سے مقرر ہے البتہ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ شارع کی جانب سے داڑھی بڑھانے یا داڑھی کو معاف رکھنے (یعنی نہ کاٹنے) کا حکم متعدد احادیث میں موجود ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے:
عن ابن عمر رضی الله عنهما قال قال رسول الله صلی الله علیه و آله و صحبه وسلّم خالفوا المشرکین وفروا اللحیٰ واحفوا الشوارب. (بخاری رقم الحديث: 5892)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرکوں کی مخالفت کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ مونچھیں کٹاؤ۔
عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم « عشر من الفطرة قص الشارب وإعفاء اللحية… الخ (صحيح مسلم: رقم الحديث: 627)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں داخل ہیں ان میں مونچھوں کو کٹانا اور داڑھی کو بڑھانا۔
اور جو شخص رسول اللہ ﷺ کے صریح حکم کی خلاف ورزی کرے اس کے لیے مندرجہ ذیل وعیدیں ہیں۔ قرآن پاک میں ہے:
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ. [النساء: 14]
ترجمہ: اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور نکل جائے اس کی حدود سے، ڈالے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہے گا اس میں اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا. [الأحزاب: 36]
ترجمہ: اور جس نے نافرمانی کی اللہ کی اور اس کے رسول کی سو وہ راہ بھولا صریح چوک کر۔
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا. [الجن: 23]
ترجمہ: اور جو کوئی حکم نہ مانے اللہ کا اور اس کے رسول کا سو اس کے لیے آگ ہے دوزخ کی رہا کریں اس میں ہمیشہ۔
ان دو باتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ جو شخص ایک مشت (مٹھی) سے زائد داڑھی کو بھی کاٹے تو وہ بھی فاسق ہو لیکن چونکہ ترمذی شریف میں آپ ﷺ کا معمول منقول ہے کہ آپ ﷺ اپنی داڑھی کے طول (لمبائی) عرض (چوڑائی) سے کچھ بال کاٹ لیا کرتے تھے۔ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بخاری شریف میں یہ معمول منقول ہے کہ وہ حج یا عمرہ سے فراغت پر ایک مشت سے زائد داڑھی کے بالوں کو کاٹ لیا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کا داڑھی بڑھانے کا حکم ایک مشت تک ہے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ترمذی شریف کی روایت ضعیف ہے اور وہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو حجت نہ مانے تو اس کا نتیجہ یہ تو ہو سکتا ہے کہ داڑھی کو بالکل بھی کاٹنے کی گنجائش نہ ہو لیکن ایک مشت سے زائد کاٹنا تو حضور ﷺ کے فرمان کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اور اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ داڑھی کی حد استنباطی ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو شخص اس حد سے داڑھی کو کم کرے وہ فاسق نہ ہو کیونکہ استنباطی مسئلے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہو، ایسے مسائل میں اگر کوئی ایک امام کی تقلید کر کے دوسرے امام کے مسائل میں عمل نہیں کرتا تو فاسق نہیں ہوتا۔ دوسرے وہ مسائل جو استنباطی ہونے کے باوجود متفق علیہ اور اجماعی ہیں۔ داڑھی کی مقدار کا مسئلہ بھی متفق علیہ اور امت مسلمہ کا اجماعی مسئلہ ہے۔ اور اجماعی مسئلے پر عمل نہ کرنے والا بھی فاسق ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا. [النساء: 115]
ترجمہ: اور چلے سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔
لہذا جو شخص اپنی داڑھی ایک مشت سے کم کرے گا وہ حضور ﷺ کے حکم کی نافرمانی کرنے والا اور اجماع کا مخالف ہے اور حضور ﷺ کے حکم کی نافرمانی کرنے والے اور اجماع کے مخالف کے فاسق ہونے میں کیا تردد ہے کیونکہ فسق خروج عن الاستقامۃ (راہ حق سے ہٹنے) کو کہتے ہیں اور راہ حق وہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved