- فتوی نمبر: 17-398
- تاریخ: 18 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > زیب و زینت و بناؤ سنگھار
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب آپ سے داڑھی کو مہندی لگانے کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں برائے مہربانی قرآن وسنت اور اہل سنت والجماعت کی روشنی میں واضح فرمادیں۔
1 ۔وہ کون سے لوگ ہیں جن کو داڑھی پر کالا رنگ استعمال کرنے کی اجازت ہے؟
2 ۔کیا عورت بھی سر پر کالا رنگ لگا سکتی ہے (اگر اس کے بال سفید ہورہے ہیں)؟
3 ۔کیا داڑھی پر مہندی کے علاوہ کوئی اور چیز لگائی جاسکتی ہے جیسے آج کل براؤن کلر(کالا کولا)یا کوئی اور لگایا جاسکتا ہے؟
4 ۔اگر کالا رنگ استعمال کرنا حرام ہے تو اور کون کون سے رنگ سر اور داڑھی کے بالوں پر لگائے جاسکتے ہیں؟
5 ۔کیامہندی میں کالا کلر ملا سکتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1 ۔ مجاہدکیلئے جہاد کے وقت (جبکہ دشمن سے آمنا سامنا ہو) داڑھی کو اس نیت سے کالا کرناتاکہ دشمن کے دل میں اس کا رعب پڑے اور اسے یہ لگے کہ یہ جوان آدمی ہے یہ جائز بلکہ محمود (قابل تعریف)ہے۔اور بعض حضرات نے زینت کی نیت سے شوہر کو بھی داڑھی یا سر کے بال کالے کرنے کی اجازت دی ہے تاہم اکثر نے منع ہی کیا ہے۔اور اسی کو ترجیح بھی ہے۔
2 ۔عورت بھی اپنے سر کے سفید بالوں کو کالا نہیں کر سکتی۔
3 ۔4۔سر اور داڑھی کے بال سفید ہوگئے ہو ں تومہندی کے علاوہ کوئی اور کلر(رنگ)بھی لگا سکتے ہیں بشرطیکہ اس کے لگانے سے بال خالص کالے نہ ہوتے ہوں۔
5 ۔ مہندی میں کالاکلر (رنگ )ملا سکتے ہیں لیکن اگر اس کے نتیجے میں بال بالکل کالے ہو جاتے ہوں تو یہ جائز نہیں ۔
سنن النسائی صفحہ نمبر277 (قدیمی کتب خانہ) میں ہے:
أخبرنا عبد الرحمن بن عبيد الله الحلبي، عن عبيد الله وهو ابن عمرو، عن عبد الكريم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، رفعه أنه قال: «قوم يخضبون بهذا السواد آخر الزمان كحواصل الحمام، لايريحون رائحة الجنة
صحیح مسلم 2/199 (قدیمی کتب خانہ) میں ہے:
وحدثني أبو الطاهر، أخبرنا عبد الله بن وهب، عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضاً، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد»”.
تکلملۃ فتح الملہم 9/88 میں ہے:
(قوله:) واجتنبوا السواد : به استدل من قال بمنع الخضاب بالسواد۔ وتفصيل الكلام في ذلك ان الخضاب بالسواد يختلف حكمه باختلاف الاغراض على الشكل التالي:
الاول : ان يكون الخضاب بالسواد من الغزاة ليكون اهيب في عين العدو ،وهذا جائز بالاتفاق قال في الفتاوى الهندية: واما الخضاب بالسواد ، فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون اهيب في عين العدو:فهو محمود منه، اتفق عليه المشائخ رحمهم الله تعالى
والثاني : ان يفعله الرجل للغش والخداع، وليرى نفسه شابا ، وليس بشاب ، فهو ممنوع بالاتفاق ، لاتفاق العلماء على تحريم الغش والخداع
والثالث : ان يفعله للزينة ، وهذا فيه اختلاف فاكثر العلماء على كراهته تحريما، وروي عن ابي يوسف رحمه الله انه قال : كما يعجبني ان تتزين لي يعجبها ان اتزين لها
فتاویٰ ہندیہ 9/176 میں ہے:
اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ”.
فتاویٰ شامی 9/696 میں ہے:
يستحب للرجل خضاب شعره ولحيته ولو في غير حرب في الاصح…. ويكره بالسواد في الشامية قوله(يكره بالسواد) اي لغير الحرب
کفایت المفتی جلد 9 صفحہ 180 میں ہے:
سوال :چالیس سال کی عمر میں سیاہ خضاب لگانا کیسا ہے ؟
(جواب ) سیاہ خضاب کسی شرعی مصلحت سے لگانا مثلاً جہاد میں شرکت کے لئے یا بوڑھے شوہرکو جوان بیوی کی خوشنودی کے لئے جائز ہے اوراگرکوئی شرعی ضرورت نہ ہو تو خالص سیاہ خصاب مکروہ ہے البتہ اول مہندی لگا کر بعد میں بال بھورے کرلئے جائیں یا مہندی اور وسمہ ملاکر لگایا جائے جس سے خالص سیاہی نہیں آتی تو یہ جائز ہے ۔
امداد الفتاویٰ جلد نمبر 4 صفحہ 213 میں ہے:
سوال : خضاب لگانا کیسا ہے؟
الجواب: خضاب سرخ بالاتفاق جائز بلکہ مستحب ہے۔ اور سیاہ خضاب جہاد میں ہیبتِ دشمن کے لئے بھی جائز ہے، اورمحض زینت کے واسطے مختلف فیہ ہے۔ عامۂ مشائخ کا قول کراہت ہے اور امام ابویوسفؒ نے جائز رکھا ہے؛ لیکن احتیاج اور راجح نہ کرنا ہے۔
اتفق المشائخ أن الخضاب في حق الرجال بالحمرۃ سنة، وأنه من سیماء المسلمین وعلاماتهم، وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلک من الغزاۃ لیکون أهیب في عین العدو فهو محمود منه اتفق عليه المشایخ، ومن فعل ذٰلک لیزین نفسه للنساء أو لیحبب نفسه إليهن فذٰلک مکروہ علیه عامة المشایخ، وبعضهم جوزوا ذلک من غیر کراھة، وروي عن أبی یوسفؒ أنه قال: کما یعجبني أن تتزین لي یعجبها أن أتزین لها، کذا في الذخیرۃ۔ عالمگیری ج ۴، ص ۱۳۹
فتاویٰ رحیمیہ جلد 10 صفحہ117 میں ہے:
سوال :سر کے بال جوانی میں سفید ہوجائیں تو سیا ہ خضاب لگانا کیسا ہے؟ بینواتوجروا۔
(الجواب)سیاہ خضاب لگانا سخت گناہ ہے۔ احادیث میں اس پر وعید آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے:
عن ابن عباس رضی اﷲ عنه عن النبی صلی اﷲ علیه وسلم قال یکون قوم فی آخر الزمان یخضبون بهذا السواد کحو اصل الحمام لا یجدون رائحة الجنة
حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایاآخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگائیں گے جیسے کبوتر کا سینہ ان لوگوں کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی (ابوداؤد شریف ج۲ ص ۲۲۶ باب ماجاء فی خصاب السواد)(مشکوٰۃ شریف ص ۳۸۲) دوسری حدیث ہے:
عن جابر رضی اﷲ عنه قال اتی النبی صلی اﷲ علیه وسلم بابی قحافة یوم الفتح ورأ سه ولحیته کالثغامة بیا ضاً فقال النبی صلی اﷲ علیه وسلم غیروا هذا بشئی واجتنبوا السواد۔
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ابو قحافہ رضی اﷲ عنہ کو حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں لایا گیا ان کے سر اور داڑھی کے بال ثغامہ کے مانند بالکل سفید تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس سفیدی کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہ خضاب سے احتراز کرو (ابوداؤد شریف ج۲ ص ۲۲۶ باب فی الخضاب)(مشکوٰۃشریف ص ۳۸۲)
اس حدیث میں سیاہ خضاب سے بچنے کا صراحتاً امر فرمایا لہذا اس سے بالکل احتراز کیا جائے اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔ سیاہ خضاب کے علاوہ دوسرے رنگ کا خصاب مثلاً سرخ خالص حناء یعنی مہندی کا یا کچھ سیاہی مائل جس میں کتم (ایک قسم کی گھاس ہے جو خضاب کے کام میں آتی ہے) شامل کیا جاتا ہے، جائز ہے ،حدیث میں ہے ان احسن ماغیربه الشیب الحناء والکتم بہترین خضاب حنا اور کتم ہے ۔(ابو داؤد شریف ج۲ ص ۲۲۶ باب فی الخضاب)(مشکوٰۃ شریف ص ۳۸۲)
حضرت صدیق اکبررضی اﷲ عنہ سے صحیحین میں منقول ہے کہ حناء اور کتم کا خضاب لگاتے تھے ۔
وفی الصحیحین عن انس رضی اﷲ عنه ان ابا بکر رضی اﷲ عنه اختضب بالحناء والکتم (بحواله زاد العاد ج۲ ص ۱۶۹)
فتاوی عالمگیری میں ہے :
وعن الا مام ان الخضاب حسن لکن بالحناء والکتم والوسمة واراد اللحیة وشعر الرأس ۔
یعنی، داڑھی اور سر کے بال میں خضاب کرنا اچھا ہے، لیکن مہندی، کتم اور وسمہ سے خصاب کیا جائے (فتاویٰ عالمگری ج ۶ ص ۲۳۸ کتاب الکراہیۃ الباب العشرون فی الزینۃ الخ )
مسائل بہشتی زیور جلد 2 صفحہ205 میں ہے:
مرد ہو یا عورت اس کے لئے سیاہ خضاب کا استعمال جائز نہیں البتہ اس کے علاوہ اور رنگ جائز ہیں۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد8 صفحہ 320 میں ہے:
سوال : میں سر اور داڑھی کے بالوں کو کالی مہندی سے سیاہ کرتا ہوں یہ پوڈر کی شکل میں ملتی ہے اور پانی ملا کر لگائی جاتی ہے۔ برائے کرم آپ رہنمائی فرمائیں کہ بالوں کو سیاہ رنگنا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب: بالوں کو کالا کرنا خواہ خضاب کی صورت میں ہو یا کالی مہندی سے مکروہ تحریمی یعنی حرام اور ناجائز ہے۔ ہاں البتہ مہندی یا براؤن رنگ بالوں کو لگانا جائز ہے۔بالکل سیاہ کرنا ناجائز ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد 8 صفحہ 380 میں ہے:
سوال : خضاب کے استعمال کا کیا حکم ہے؟ کیا مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں طور پر ممنوع ہے؟ اگر خضاب کے بجائے کوئی اور دوا یا ٹانک لگائے تو کیا حکم ہے؟
جواب : بالوں کو کالا کرنا ناجائز ہے مرد کے لئے بھی اور عورت کے لئے بھی خواہ کسی دوائی سے کرے۔
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (ویب سائٹ) سوال جواب نمبر ( (145474میں ہے:
سوال :کیا جوان عورت اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لیے کالا خضاب لگا سکتی ہے ؟
الجواب: کالی منہدی یا کسی اور کلر کے ذریعے بالوں کو خالص سیاہ بنانا شرعاً جائز نہیں ہے، مکروہ ہے، احادیث میں سیاہ خضاب استعمال کرنے پر سخت وعید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جو لوگ سیاہ خضاب استعمال کرتے ہیں وہ بہ روزِ قیامت جنت کی خوشبو تک سے محروم رہیں گے۔
یکون قوم یخضبون في آخر الزمان بالسَّوداء کحواصل الحمام لا یریحون رائحة الجنة (أبوداوٴود، رقم: ۴۲۱۲، باب في الخضاب)
اور اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کی بیوی کے لیے بالوں کو خالص سیاہ بنانا جائز نہیں ہے، خواہ کالی منہدی سے بنائے یا کسی اور کلر سے؛ ہاں خالص سیاہ کے علاوہ دیگر رنگ کا خضاب استعمال کرسکتی ہے۔
اختضب لأجل التزین للنّساء الجواري جاز في الأصحّ ویکرہ بالسواد․․․ ومذهبنا أن الصبغ بالحناء والوسمة حسن کما في الخانیة، قال النووي:ومذهبنا استحباب خضاب الشیب للرّجل والمرأة بصفرة أو حُمرة وتحریم خضابه بالسواد علی الأصحّ لقوله علیه السلام: غیّروا هذا الشیب واجتنبوا السّواد اھ قال الحموي هذا في حق غیر الغزاة ولا یحرم في حقّهم للإرهاب ولعلّه محمل من فعل ذلک من الصحابة ط․ (درمختار مع رد المحتار: ۱۰/ ۴۸۸، ط: زکریا)
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (ویب سائٹ) سوال جواب نمبر(1054) میں ہے:
سوال : میری عمر ۳۸/سال ہے اور شرعی داڑھی رکھتا ہوں، الحمد للہ۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ سال کے اندر میری داڑھی میں حیرت انگیر طور پر سفید بال بڑی تیزی کے ساتھ بڑھنے لگے ، مجھ سے ہر آدمی پوچھنے لگا کہ کیوں اتنی جلد بوڑھے دکھائی دینے لگے۔ کچھ رشتہ دار میری بیوی سے مذاق کرتے ہیں اور اسے میری بیٹی کہتے ہیں ، کیوں کہ ہم دونوں میں بظاہر زیادہ فرق محسوس ہوتا ہے۔ جولائی ۲۰۰۵ء میں میرے ساتھ ایک سڑک حادثہ ہوا اور مجھے سر میں چوٹ آئی۔ اس کے بعد ہی سے میری داڑھی سفید ہونے لگی، لیکن یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سفیدی حادثہ کی وجہ سے ہے۔ اس کے علاوہ میرے ساتھ کوئی اور طبی مسئلہ نہیں ہے۔ کیا کسی بھی طرح سے داڑھی میں خضاب لگانا/ رنگنا جائز ہے؟ اگر ہاں، تو بتائیں کیسے اور کن حالات میں
الجواب : کالا خضاب تو ہرگز نہ لگائیں البتہ مہندی وغیرہ کا خضاب لال رنگ یا لال کالا ملا ہوا لگاسکتے ہیں جب کہ لال غالب ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved