- فتوی نمبر: 12-247
- تاریخ: 09 جولائی 2018
- عنوانات: حظر و اباحت > لباس و وضع قطع
استفتاء
میرا سوال یہ ہے کہ داڑھی کٹوانے کا گناہ ہے کہ نہیں ؟ نیت کیے بغیر کٹوانے کا کیا گناہ ہے اور نیت کرنے کے بعد داڑھی کٹوانے کا کیا گناہ ہے؟ قرآن و حدیث سے جو ثابت ہو۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
داڑھی کٹوانا حضور ﷺ کے فرمان کی خلاف ورزی اور گناہ کا کام ہے اور آپ ﷺ کے فرمان کی خلاف ورزی کی جو وعیدیں قرآن و حدیث میں وارد ہیں وہ وعیدیں داڑھی کٹوانے والے کے لیے ہیں ۔ چاہے نیت سے کٹوائے یا بغیر نیت کے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
عن ابن عمر رضی الله عنهما عن النبی ﷺ قال: احفوا اللحی و اعفوا الشوارب۔ (مسلم شریف: رقم الحدیث: 259)
ترجمہ: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضور ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: مونچھیں کٹاؤ اور داڑھی بڑھاؤ ۔
داڑھی کا وجوب از حضرت شیخ الحدیث زکریا صاحب رحمہ اللہ میں ہے:
’’ابن عساکر وغیرہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مرسلاً حضور اقدس ﷺ کا پاک ارشاد نقل کیا ہے کہ دس خصلتیں ایسی ہیں جو قوم لوط میں تھیں جن کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے۔ ان دس چیزوں میں داڑھی کٹوانا اور مونچھوں کا بڑھانا بھی ذکر کیا گیا ہے۔‘‘
’’زید بن حبیب سے نقل کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ نے داڑھی منڈائے ہوئے دو شخصوں کی طرف جو شاہ کسریٰ کی طرف سے قاصد بن کر آئے تھے ان کی طرف نگاہ فرمانا بھی گوارہ نہیں فرمایا اور فرمایا تمہیں ہلاک ہو یہ حلیہ بنانے کو کس نے کہا، انہوں نے کہا ہمارے رب (شاہ کسریٰ) نے حکم دیا ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا لیکن مجھے میرے رب نے داڑھی کے بڑھانے اور مونچھوں کے کٹوانے کا حکم دیا ہے۔‘‘۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved