- فتوی نمبر: 13-55
- تاریخ: 01 جنوری 2019
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر داڑھی لمبی ہوتی جا رہی ہو تو کاٹنے کی شریعت میں کیا حد ہے ؟ بحوالہ احادیث وسنت جواب سے مطلع فرمائیں ۔
دوسرا شریعت میں داڑھی کو رنگ لگانے یعنی مطلقا خضاب کی کس حد تک رخصت ہے اور کیا خود نبی کریم ﷺ یا صحابہ رضی اللہ عنہم نے رنگ لگایا ہے بحوالہ احادیث وسنت راہنمائی فرمائیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ شریعت میں داڑھی کی ضروری مقدار ایک قبضہ (یعنی چار انگل) ہے چار انگل سے زائد داڑھی کو کاٹ سکتے ہیں کیونکہ احادیث میں داڑھی کو بڑھانے کا حکم بھی ہے اور آپ ﷺ سے داڑھی کی لمبائی اور چوڑائی میں سے کچھ کو کاٹنا بھی ثابت ہے جیسا کہ مندجہ ذیل روایت سے ثابت ہے ۔
مسلم شریف میں ہے ۔
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلي الله وليه وسلم خالفواالمشركين احفو االشوارب واوفو اللحي …. رقم الحديث 259
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں کٹاؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔
ترمذی شریف میں ہے ۔
عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان النبي صلي الله عليه وسلم كان ياخذ من لحيته من عرضها و طولها … حديث نمبر 2762
ترجمہ : حضرت عمر و بن شعیب اپنے والد کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ اپنی داڑھی کی لمبائی اور چوڑائی میں سے (کچھ کو کاٹ ) لیا کرتے تھے ۔
داڑھی کو کتنا کاٹنا ہے اور کتنا بڑھانا ہے اس کی تعیین اس حدیث کے راوی خود جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل سے ہوتی ہے کہ داڑھی بڑھانے کا حکم چار انگل تک ہے ۔کیونکہ اگر ایک مشت (چار انگل) سے زائد بالوں کو کاٹنے کی اجازت نہ ہوتی تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جو اتباع سنت میں زیدہ اہتمام کرتے تھے وہ ایک مشت سے زائد بالوں کو نہ کاٹتے ۔
چنانچہ کتاب الآثار صفحہ 203میں ہے ۔
عن ابن عمر رضي الله عنهما انه كان يقبض علي لحيته ثم يقص ما تحت القبضه قال محمد وبه ناخذ وهو قول ابي حنيفه …..
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی داڑھی کے بالوں کو مٹھی میں لیتے پھر مٹھی کے نیچے والے سارے بال کاٹ لیتے تھے ۔ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم بھی اسی پر عمل کرتے ہیں ۔اور امام ابو حنیفہ کا بھی یہی قول ہے ۔
2۔ داڑھی اگر سفید ہو جائے تو خضاب لگانا مستحب ہے کیونکہ آپﷺ نے اس کا حکم بھی دیا ہے اور حضرات صحابہ کرام رضی ا للہ عنہم نے خضاب لگایا بھی ہے ۔
جیسا کہ مسلم شریف میں ہے ۔
عن جابر بن عبد الله قال اتي بابي قحافة يوم فتح مكة وراسه ولحيته كا الثغامه بياضا فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم غيروا هذا بشيئ… حديث نمبر 2102
ابوداؤد شریف میں ہے
عن انس رضي الله عنه انه سئل عن خضاب النبي صلي الله عليه وسلم فذكر انه لم يخضب ولكن قد خضب ابو بكر و عمر رضي الله عنهما ….. حديث نمبر 4209
۔البتہ ایسا خضاب لگانا جس سے بال کالے ہوں یہ مکروہ ہے اورحضور ﷺ نے خضاب لگایا یا نہیں ؟ اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے حنفیہ کی تحقیق یہ ہے کہ آپ ﷺ نے خضاب نہیں لگایا لیکن آپ ﷺ کا خضاب نہ لگانا اس لیے نہیں تھا کہ آپ ﷺ کو نا پسند تھا بلکہ اس وجہ سے تھا کہ آپﷺ کو اس کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ وفات تک آپﷺ کی داڑھی مبارک میں صرف سترہ کے قریب بال سفید تھے .
جیسا کہ فتاوی شامی 9/518میں ہے ۔
يستحب للرجل خضاب شعره ولحيته ولو في غير حرب في الاصح والاصح انه عليه السلام لم يفعله ويكره بالسواد ……قوله (والاصح انه عليه السلام لم يفعله) لانه لم يحتج اليه لانه توفي ولم يبلغ شيبه عشرين شعرة في راسه و لحيته بل كان سبع عشره كما في البخاري
© Copyright 2024, All Rights Reserved