• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

داڑھی منڈوانے والے کی امامت اور اذان کا حکم اور داڑھی کی شرعی مقدار

استفتاء

۱۔ ڈاڑھی  کی شرعی مقدار کیا ہے؟

۲۔ ڈاڑھی منڈوانے یا کٹوانے والے کا کیا حکم ہے؟

۳۔ اور ایسے شخص کی امامت و اذان دینے کا کیا حکم ہے؟

۴۔ اگر ایسے شخص نے امامت یا اذان کہی ہو تو اس اذان اور نماز کو لوٹانا چاہیے یا کہ نہیں؟ کیا حکم شرعی ہے، ان مسائل کی بالتفصیل راہنمائی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ داڑھی کی شرعی مقدار ٹھوڑی سے  ایک مشت ہے ایک مشت سے زائد کاٹنا بعض کے ہاں واجب اور بعض کے ہاں سنت ہے۔ بالکل منڈوانا یا اتنی کتروانا جس پر عرفاً بڑھانے کا اطلاق نہ ہو ناجائز ہے کیونکہ یہ امر  ” اعفو ا اللحى” کے خلاف ہے۔

في فتاوى الشامية: تطويل اللحية إذا كانت بقدر المسنون و هو القبضة و صرح في النهاية بو جوب قطع ما زاد على  القبضة و مقتضاه الإثم بتركه ( قوله في النهاية ) حيث قال: و ما  وراء ذلك يجب قطعه هكذا عن رسول الله صلى الله و عليه و آله و سلم إنه كان يأخذ من اللحية من طولها و عرضها. أورده أبو عيسى  الترمذي في جامعه

اور رہی وہ حدیث جس میں داڑھی بڑھانے کا حکم ہے تو اس حدیث یعنی ” و اعفو ا اللحىة” کے راوی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ  ایک مشت سے زائد داڑھی کتروا دیتےتھے، تو جب راوی خود اپنی مروی روایت کے  خلاف عمل کرے تو یہ دلیل ہے کہ  یا تو وہ حدیث منسوخ ہے  یا موول   اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ  دیگر روایات سے اور نبی علیہ الصلاة والسلام سے  اعفاء کا محمل مروی ہے وہ یہ کہ عجمی  مجوسیوں کی مانند داڑھی نہ تو بالکل منڈواؤ اور نہ ہی داڑھی کا زیادہ حصہ کاٹو۔ اس کی تائید مسلم شریف کی روایت: "عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم جزو الشوارب و  اعفوا اللحى خالفو المجوس” سے ہوتی ہے ۔ تو معلوم ہوا داڑھی ایک مشت تک ہے۔

فهذه الجملة أي خالفوا المجوس واقعة موقع التعليل. و أما الأخذ منها و هي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد. و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم. (417، 418/ 2)

2۔ داڑھی منڈوانے والا یا کٹوانے والا فاسق ہے۔

3،4۔ ایسے شخص کا امامت کرانا یا اذان دینا  کہنا، مکروہ تحریمی ہے۔ البتہ ایسے امام کے پیچھے نماز مجبوری سے پڑھی تو اعادہ  واجب نہیں۔

و يكره أذان جنب و إقامته… و فاسق ولو عالماً …. و ظاهر أن الكراهة تحريمية صاحب البحر جعل العقل و الإسلام شرط صحة، والعدالة و الذكورة… والطهارة شرط كمال و قال فأذان الفاسق و  المرأة و الجنب صحيح.( شامی، 392،393/ 1)۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved