• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دباؤ میں آکر میسج پر طلاق دینے سے نکاح کا حکم

استفتاء

میری دو بیویاں ہیں ، پہلی بیوی سے میرے چار بچے ہیں اور دوسری بیوی حاملہ ہے، میری پہلی بیوی حنفی اور دوسری بیوی مالکی ہے، میں نے ایک دفعہ اپنی دوسری بیوی کو زبانی طلاق دی تھی جس کو اس نے ایک شمار کیا تھا ، پھر کچھ عرصہ بعد مجھ پر فیملی کا پریشر تھا کیونکہ میری پہلی بیوی خوش نہیں تھی کہ میری دوسری بیوی ہے، میری دوسری بیوی چھٹیوں پر دور تھی اور میں اپنی پہلی بیوی کے پریشر میں تھا کہ میں اسے طلاق دوں اس نے مجھے مجبور کیا کہ میں اسے طلاق کا ثبوت دوں تو میں نے پریشر اور الجھاؤ میں واٹس ایپ کے ذریعے دوسری بیوی کو دو دفعہ  میسج بھیجا  میری بیوی نے کہا کہ تم تین دفعہ لکھو تو پھر پریشر  میں میں نے تین دفعہ لکھ دیا ، میری دوسری بیوی نے اس کو دوسری طلاق شمار کیا ہے اور میں نے بھی اسے دوسری طلاق سمجھا ہے۔

میسج کے الفاظ یہ ہیں:

Im divorcing you

Im divorcing you

Im divorcing you

ترجمہ: میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں۔

میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں۔

میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں۔

وضاحت مطلوب ہے:  (1)پہلی طلاق کے الفاظ کیا تھے اور اس کے بعد رجوع کب ہوا تھا؟ (2) پريشر كس درجے  كا تها؟

جواب  وضاحت: Im divorcing you(میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں) اس کے بعد ہم نے  رجوع کرلیا تھا۔ (2)میری پوری فیملی ایک طرف تھی ، میری پہلی بیوی میرے ابو کے ساتھ مل کر مجھے گھر اور کاروبار سے نکال رہے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے پہلے جب اپنی بیوی کو  زبانی ایک دفعہ کہا تھا کہ “Im divorcing you” (میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں) تو اس  سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر اگر  عدت کے اندر رجوع کرلے تو نکاح باقی رہتا ہے اور چونکہ شوہر نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا تو نکاح  باقی رہا۔پھر اس کے بعد جب شوہر نے اپنی پہلی بیوی کے پریشر میں آکر تین دفعہ طلاق کے میسج کیے تو تحریری طلاق اگر دباؤ میں آکر لکھی جائے تو وہ طلاق شرعاً واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر واقعتاً شوہر کو یہ غالب گمان تھا کہ اگر وہ طلاق نہ دے گا  تو اس کی بیوی اور اس کا والد اس کو گھر اور کاروبار سے نکال دیں گے  تو مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر مذکورہ باتوں کا غالب گمان نہ تھا تو میسج کرنے  کی وجہ سے تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے اور رجوع یا صلح کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

نوٹ: مذکورہ صورت میں شوہر کا مؤقف یہ ہے کہ اس نے  پریشر میں (مجبور ہو کر) دستخط کیے تھے، اب حقیقت میں دباؤ تھا یا نہیں؟ اس کا فیصلہ مفتی نہیں کر سکتا، اس کا فیصلہ خود شوہر نے کرنا ہے۔

توجیہ: اکراہ کا ادنی مرتبہ یہ ہے کہ وہ موجبِ غم ہو اور موجبِ غم امر اشخاص کے مختلف ہونے سے مختلف ہوسکتا ہے، ہمارے معاشرے میں بیوی بچوں کا جدائی اختیار کرلینا یا  شوہر کو کاروبار سے نکال دینا غم کا باعث بنتا ہے، لہذا اگر شوہر کو بیوی، بچوں کے جدائی اختیار کرنے یا کاروبار سے نکال دینے کا غالب گمان تھا تو اکراہ کا ادنی درجہ ثابت ہوگا اور طلاق واقع نہ ہوگی۔

درمختار(9/253) میں ہے:

الإكراه (هو لغة حمل الإنسان على) شىء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا الى الفعل الذى طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجىء بتلف نفس أو عضو أوضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجىء.  (وشرطه) أربعة امور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثانى (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أى إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجاء (و) الثالث (كون الشىء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه، وهو يختلف بإختلاف الأشخاص، فإن الأشراف يغمون لكلام خشن، والأراذل ربما لايغمون إلا بالضرب المبرح، إبن كمال. (و) الرابع (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص ( آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع)

در مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..

عالمگیریہ (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد

بدائع الصنائع(295/3)میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلى هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عزوجل{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة………..الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved