• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دادا کی جائیداد میں بیوہ اور یتیم بچوں کا حصہ

استفتاء

ایک ایسا مسئلہ  درپیش ہے کہ ہمارا ذہن چکرا گیا ہے اس لیے آپ سے رابطہ کرنے کا یہی مقصد ہے تاکہ اس مسئلے میں قرآن و سنت و احادیث کی روشنی میں رہنمائی حاصل کرسکیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک فیملی جس میں والدین، دو بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں، پھر اچانک ان کے بڑے بیٹے کا انتقال ہو گیا، بڑے بیٹے کی ایک بیوہ اور تین بیٹے ہیں پھر اچانک دو ماہ بعد والد کا بھی انتقال ہو گیا۔ اب وراثت کا مسئلہ آیا تو جو زندہ ہیں  ان کی والدہ ایک بیٹا اور بیٹیاں  ایک مفتی یا قاری کو لے کر آئے تو انہوں نے بتا دیا کہ چونکہ بیٹا والد سے پہلے ان کی زندگی میں فوت ہو گیا تھا  تو قرآن وحدیث کی رُو سے فوت شدہ بڑے بیٹے  کی بیوہ اور یتیم بچوں کا اپنے دادا کے جائیداد وغیرہ میں کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں ہے لہذا تمام گھر والے اس کی بیوہ اور بچوں کو بغیر کچھ دیے زبردستی گھر سے نکال رہے ہیں ۔محترم آپ ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں فتوی دیں  تاکہ ہم لوگوں کو قلبی سکون حاصل ہو کیونکہ اگر شرعی حصہ نہیں ہے تو بچے اور بیوہ بخوشی دستبردار ہو جائیں گے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکور صورت میں  مرحوم بیٹے  کے بیوی، بچوں  کا دادا کی جائیداد وغیرہ میں شرعاً کوئی حصہ نہیں کیونکہ جو بیٹا، بیٹی اپنے والد کی زندگی میں فوت ہوجائے تو دوسرے بیٹے، بیٹیوں کے ہوتے ہوئے اس فوت ہونے والے بیٹے، بیٹی یا اس کی اولاد کا اس مرحوم بیٹے، بیٹی کے والد کی وراثت میں شرعاً حصہ نہیں بنتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved