• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دادا کی میراث میں پوتی کا حصہ

استفتاء

مرحوم دادا کی وراثت سے پوتی کا حصہ لے لیا ہے اب کیا کریں؟

تفصیل درج ذیل ہے:

میں مسمی زینب عرض کرتی ہوں کہ میری پہلی شادی ہوئی تھی جس میں سے میری ایک بیٹی تھی اور بعد میں طلاق ہو گئی۔ اور بیٹی میرے پاس آ گئی طلاق کے وقت میری بیٹی کی عمر تقریبا 3 ماہ تھی ۔ میں  نے اس کا خرچ کیا اور اس کی عمر تقریبا 10 سال ہوگئی اس دوران میرے شوہر  نے کبھی خرچ نہ دیا اور میرے پہلے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ اس کے انتقا ل کے کچھ  عرصہ بعد اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اور پھر بچی کے دادا کی وراثت عمل میں آئی وارثان نے میری بیٹی آمنہ کا حصہ خود ادا نہ کیا تو بذریعہ عدالت حاصل کرنے میں تقریباتین سال لگے اور اس پر پانچ لاکھ روپے خرچ ہو گئے اس کے بعد پھر جا کر کل 22 لاکھ روپے حصہ ملا،حصہ بھی اس طرح ملا کہ وارثان نے جگہ آگےتیسرے فریق کو فروخت کر دی تھی اور اسے رجسٹری کی ضرورت تھی مجھے تیسرے فریق نے رجسٹری کے لیے رقم ادا کر دی اب میرے پاس 17 لاکھ روپے بچے جس سے میں نے ایک گھر خرید کر لیا ۔اور یہ 17 لاکھ روپے اس میں ادا کر دیے اور موجودہ گھر کے علاوہ میں کرائے پر رہتی ہوں اور میرا دوسرا موجودہ شوہر میرے ساتھ اس میں رہتا ہے لیکن اب میرے موجودہ شوہر کو کسی نے بتایا ہے کہ دادا کی وراثت سے پوتی کا حصہ نہیں بنتا ۔ اب ہمارے لیے کیا حکم بنتا ہے کل رقم 22 لاکھ ملی پانچ لاکھ عدالتوں میں خرچ ہو گیا باقی 17 لاکھ کا گھر لے لیا ہے پراپرٹی کی اصل قیمت جو میرے حصہ کی تھی تقریبا 65 لاکھ تھی۔

نوٹ:میرے پہلے شوہر کا دادا کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا تھا  میرے پہلے شوہر کا کاروبار تھا اور وہی اس کو چلاتا تھا میرے شوہر کا ایک بھائی اور سات بہنیں تھیں بڑا بھائی اپنی شادی کے فورا بعد  الگ ہو گیا تھا اور اس کا کاروبار بھی الگ تھااوررہائش بھی الگ تھی میرے شوہر کی کمائی سے ہی سارا گھر چلتا تھا میرا سسر صرف دکان پر کھانا لے کر جاتا تھا اور میرے شوہر نے ہی بہنوں کی شادی کی تھی بڑے بھائی اور میرے شوہر کی عمر میں کافی زیادہ فرق تھا اور ایک مکان اور میرے شوہر کے نام پر ہے لیکن اس پر اس کے بہنوں اور بھائی نے مل کر قبضہ کر رکھا ہے اور میری وہاں تک رسائی نہ ہے ۔

یہ ایک وراثت کا مسئلہ ہے ہمیں مہر شدہ جواب چاہیے۔

وضاحت مطلوب ہے : (1) جب آپ  کے شوہر کا کاروبار بھی تھا اور مکان بھی تھا تو اس کو چھوڑ کر آپ نے صرف بچی کے دادا کی وراثت میں سے حصہ کیوں لیا اور وہ بھی تین سال تک کیس کے ذریعے سے؟ (2) 22 لاکھ تیسرے فریق نے مکان کی قیمت میں سے آپ کو دیے تھے یا انہوں نے قیمت تو آپ کے بھائیوں کو دی تھی اور یہ 22 لاکھ انہوں نے اپنی طرف سے بطور صلح کے آپ کو دیے تھے؟(3)آپ کے شوہر کے کاروبار اور مکان کی مالیت کتنی تھی؟

جواب وضاحت : (1) میرا شوہر اسی گھر میں رہتا تھا جس میں سے میں نے حصہ لیا ہے شوہر کے مکان کا میرے علم میں اب آیا ہے ۔(2)یہ میرے علم میں نہیں ہے کہ تیسرے فریق نے شوہر کے بھائیوں بہنوں کو کیا دیا یعنی کتنا معاوضہ دیا بظاہر تو اس نے صلح کے طور پر  دیا لیکن کہا دونوں باتوں  کا تھا یعنی( صلح معاوضہ)  لیکن اصل قیمت اس کی 50 سے 60 لاکھ روپے تھی۔ (3)میرے شوہر کے کاروبار کی اصل مالیت میرے علم میں نہیں لیکن وہ پہلے سعودی عرب گئے اور پھر پاکستان میں کاروبار دکان چلاتے تھے ماں باپ اور بہنوں کا بوجھ انہی پر تھا(4) میرے شوہر کے مکان کی مالیت تقریبا 45 لاکھ ہوگی کر دیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

دادا کی میراث میں پوتی  کا حصہ نہیں بنتا لیکن باپ کی میراث یعنی کاروبار اور مکان  میں بیٹی کا  نصف حصہ ہے اور والد کی جائیداد کا آدھا حصہ ،22 لاکھ سے زیاد ہ ہے جو مرحوم کے بہن بھائیوں کے قبضے میں ہے لہٰذا بیٹی کو 22 لاکھ واپس کرنے کی ضرورت نہیں  بلکہ اپنے پاس رکھ سکتی ہے۔

شامی (4/ 95) میں ہے:

«مطلب ‌يعذر ‌بالعمل بمذهب الغير عند الضرورة (قوله وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق»

مسائل بہشتی زیور (514) میں ہے:

اگر میت کا ایک بھی بیٹا موجود ہو تو پوتیاں، پڑپوتیاں محروم رہتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved