- فتوی نمبر: 23-248
- تاریخ: 30 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ میرے دادا نے مجھے تقریبا دس لاکھ روپے دیئے ہیں اور کہا یہ میری طرف سے اپنی بیٹی کی شادی پر لگا دینا ،انہوں نے مجھے اس بات کی اجازت بھی دی ہے کہ میں ان پیسوں کو اپنے استعمال میں لے آؤ ں جب شادی کا وقت ہو گا تو یہ رقم اس پر لگا دوں، اس وقت میری بیٹی کی عمر 11 سال ہے ۔
(1) میرا سوال یہ ہے کہ یہ مال کس کی ملکیت ہے ؟
(2)کیایہ رقم بچی کی شادی میں خرچ کرنا ہی ضروری ہے یا اس کے ہی کسی اور کام میں یا اپنے کام میں لائی جاسکتی ہے ؟
(3) نیز اگر خدا نخوا ستہ میرا یا بچی کا انتقال ہو جا تا ہے تو یہ کس کی وراثت میں تقسیم ہوگی ؟
انہوں نے کہا تھا کہ مجھے اس بچی سے فطری طور پر زیادہ پیار ہے ،اس لیے پتا نہیں کہ اس کی شادی تک میں زندہ رہوں یا نہیں اس لیے میرا دل ہے کہ جیسے میں نے اپنے بچے بچیوں کی شادی کاخرچہ کیاہے اسی طرح ا س کی شادی کا کھا نا میری طرف سے ہو جائے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)دادا نے اپنے پوتے کو اس بات کا وکیل بنایا ہے کہ وہ یہ دس لاکھ دادا کی طرف سے اپنی بچی کی شادی کے کھانے پر خرچ کردے لہذا یہ رقم بیٹے کے پاس دادا کی امانت ہے ،یہ رقم نہ بیتے کی ملک ہے اور نہ ہی بیٹی کی ملک ۔
(2) بیٹے کو یہ رقم استعمال کرنے کی اجازت ہے اس لیے یہ استعمال ایسا ہوگا جیسے ودیعت یاامانت کو اجازت سے استعمال کرنا کہ استعمال کے نتیجے میں وہ رقم قرض بن جاتی ہے ۔
(3) اگر دادا فوت ہوچکا ہے تو یہ رقم وثاء میں تقسیم ہوگی اور زندہ ہے تو وہ جو چاہے اس رقم میں تصرف کرسکتاہے۔
رد المحتار (6/ 492) میں ہے:الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل
مسائل بہشتی زیور (2/ 318) میں ہے :۲۔وہ معاملات جن میں کسی شے یا منفعت کا دوسرے کو مالک بنایا جاتا ہے یا حفاظت کا اختیار دیا جاتا ہے مثلاً ہبہ دینا لینا، عاریت دینا لینا، قرض لینا دینا، امانت رکھنا رکھانا اور شرکت اور مضاربت کرنا۔
ان کاموں میں بھی ضروری ہے کہ وکیل ان کی نسبت موکل کی طرف کرے اوریوں کہے کہ فلاں ( یعنی میرے موکل) سے ہبہ یا قرض یا عاریت لے لو یا فلاں کو ہبہ وعاریت دے دو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان معاملات کا حکم قبضہ سے ثابت ہوتا ہے مثلاً جب تک شے پر قبضہ نہ ہوجائے ہبہ دینا یا لینا ثابت نہیں ہوتا اور دوسرے کی ملکیت نہیں آتی۔ اورچونکہ جس شے پر قبضہ ہوتا ہے وہ وکیل کی نہیں موکل کی ملکیت ہوتی ہے یا دینے کی صورت میں دوسرے کو مالک بنانا بھی حقیقتاً موکل کی جانب سے ہی ہوسکتا ہے اور لینے کی صورت میں موکل ہی حقیقتاً مالک بنتا ہے اس لیے وکیل کی حیثیت محض پیغام رساں کی رہ جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved