استفتاء
ہمارا یہ مسئلہ ہے کہ ہماری مسجد میں جو حافظ صاحب نماز پڑھاتے ہیں وہ ڈاڑھی کٹواتے ہیں اور نماز تراویح بھی وہی پڑھاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس سنت کے مطابق داڑھی والے حافظ صاحبان بھی ہیں۔ جبکہ کمیٹی والے یہ کہتے ہیں کہ داڑھی کا کٹوانا کوئی گناہ نہیں ہے، بلکہ صرف نماز کے لیے داڑھی کا ہونا ضروری ہے چاہے چھوٹی ہو یا بڑی۔ جب کہ ان کا یہ موقف ہے کہ اگر داڑھی کے بارے میں کوئی حدیث یا فتویٰ موجود ہے تو مفتی صاحب سے لکھوا کر لائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کم از کم ایک مشت یعنی چار انگل داڑھی رکھنا واجب ہے۔ اور چار انگل سے کم کرانا، یا بالکل منڈوا دینا حرام ہے گناہ کبیرہ ہے۔
حرام اور گناہ کبیرہ کے مرتکب کو شریعت کی زبان میں فاسق کہتے ہیں اور فاسق کا امام بننا مکروہ تحریمی ہے۔ لہذا ایسے شخص کا امامت کرانا مکروہ تحریمی ہے۔ بخاری میں ہے:
عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه و سلم قال خالفوا المشركين وفروا اللحى و احصوا الشوارب، و كان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته .. أفضل أخذه. ( 2/ 875)
ترجمہ: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مشرکوں کی مخالفت کرو، ڈاڑھیاں بڑھاؤ، اور مونچھیں کٹاؤ، اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حج و عمرہ سے فارغ ہونے کے موقع پر داڑھی کو تھوڑی کے نیچے سے مٹھی میں لے کر زائد حصہ کاٹ دیا کرتے تھے۔
اور فتاویٰ شامی میں ہے:
يحرم على الرجل قطع لحيته. ( 9/ 672) ترجمہ: مرد کے لیے داڑھی کٹانا حرام ہے یعنی ایک مٹھ سے بھی کم کرتے ہوئے۔
نیز فتاوی شامی میں ہے:
و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال و لم يبحه أحد. ( 3/ 456)
ترجمہ: داڑھی کو ایک مشت سے کم کرنا جیسا کہ بعض مغربی لوگ اور ہیجڑے کرتے ہیں، تو اس کو کسی نے بھی جائز قرار نہیں دیا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved